دن چڑھے جسے
کر دیا پرے
شام میں اسے
پکارتے رہے
بوند نہ ملی
ماس میں اگر
دست سے ایذا
چمکارتے رہے
عملِ ضبط میں
شاہ سے منسوب
رگ سے بجلیاں
گزارتے رہے
مبتلائے عشق !
ادھارِ وہم میں
اپنی ہی نظر
اتارتے رہے
بد قماش تھے
اپنی ذات میں
وقت کی دلہن
تاڑتے رہے
یاس نے مگر !
بین کر لیے
اگرچہ ولولے
دھاڑتے رہے
خوشی کی لونڈیاں
قطار در قطار
انا کی تاش میں
ہارتے رہے
اظہار کھا گیا
نوزائیدہ شرم
مفت میں پلک
سنوارتے رہے
ہاتھ میں لیے
چپ کی برچھیاں
تہمتوں کی گانٹھ
پھاڑتے رہے
آئینے کا سچ
سنا نہیں گیا
آئینے کو ہم !
مارتے رہے
انجام کار سب
خسارہ کھا گئے
جو ضائع نیکیاں
شمارتے رہے
سیاہ تھی رزب
نصیب کی ردا
لہو کے نل تلے
نکھارتے رہے
( رزبؔ تبریز)
کر دیا پرے
شام میں اسے
پکارتے رہے
بوند نہ ملی
ماس میں اگر
دست سے ایذا
چمکارتے رہے
عملِ ضبط میں
شاہ سے منسوب
رگ سے بجلیاں
گزارتے رہے
مبتلائے عشق !
ادھارِ وہم میں
اپنی ہی نظر
اتارتے رہے
بد قماش تھے
اپنی ذات میں
وقت کی دلہن
تاڑتے رہے
یاس نے مگر !
بین کر لیے
اگرچہ ولولے
دھاڑتے رہے
خوشی کی لونڈیاں
قطار در قطار
انا کی تاش میں
ہارتے رہے
اظہار کھا گیا
نوزائیدہ شرم
مفت میں پلک
سنوارتے رہے
ہاتھ میں لیے
چپ کی برچھیاں
تہمتوں کی گانٹھ
پھاڑتے رہے
آئینے کا سچ
سنا نہیں گیا
آئینے کو ہم !
مارتے رہے
انجام کار سب
خسارہ کھا گئے
جو ضائع نیکیاں
شمارتے رہے
سیاہ تھی رزب
نصیب کی ردا
لہو کے نل تلے
نکھارتے رہے
( رزبؔ تبریز)
No comments:
Post a Comment