Shehzadian

شہزادیاں

شاعرہ
پروین شاکر
بوک خوشبو صفہہ 272

انتخاب اجڑا دل

عمر بھر کے لیے اب تو سوئی کی سوئی ہی معصوم شہزادیاں رہ گئی
ننید چنتے ہوۓ ہاتھ ہی تھک گۓ وہ بھی جب آنکھ کی سوئیاں رہ گئی

لوگ گلیوں سے ہو کر گذرتے رہے کوئی ٹھٹھکا نہ ٹھرا نہ واپس ہوا
ادھ کھلی کھڑکیوں سے لگی شام سے راہ تکتی ہوئی لڑکیاں رہ گئی

پاؤں چھو کر پجاری الگ ہو گۓ نیم تاریک مندر کی تنہائی میں
آگ بنتی ہوئی تن کی نوخیز خوشبو سمیٹے ہوۓ دیویاں رہ گئ

وہ ہوا تھی کہ کچے مکانوں کی چھت اڑ گئ اور مکیں لاپۃ ہو گۓ
اب تو موسم کے ہاتھوں خزاں میں اجڑنے کو بس خواب کی بستیاں رہ گئ

آخرکار لو وہ بھی رخصت ہوا
ساری سکھیاں بھی اب اپنے گھر کی ہوئی
زندگی بھر کو فنکار سے گفتگو کے لیے تنہائیاں رہ گئ

شہر ۓ گل میں ہواؤں نے چاروں طرف اس قدر ریشمیں جال پھیلا دیے
تھر تھراتے پردوں میں شکسۃ اڑانیں سمیٹے ہوۓ تتلیاں رہ گئ

اجنبی خیموں کی بجھتی ہوئی اولیں شام دھلنے لگی پرسہ دینے جو آۓ گۓ

جلتے خیموں کی بجھتی ہوئی راکھ پر بال کھولے ہوۓ بیبیاں رہ گئ


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo