Aankh Jab Aainay Se Hattayi Shaam Sundar Se Radha Aayi


شاعرہ پروین شاکر
بوک صد ۓ برگ صفہہ 189 190
انتخاب اجڑا دل
آنکھ جب آئینے سے ہٹائی
شام سندر سے رادھا ملنے آئی
آۓ سپنوں میں گو کل کے راجہ
دینے سکھیوں کو آئی بدھائی
پریم جل خوب گاگر میں بھر لوں
آج بادل نے مایا لٹائی
کس کو پنگھٹ پے جانے کی ضد تھی
کس سے گاگر نے بنتی کرائی
اوک سے پانی بہنے لگا تو
پیاس گردھر کی کیسے بجھائی؟
اب تو جل کا ہی آنچل بنالوں
پیڑ پر کیوں چنریا سکھائی
اسی بالک سے نندیا ملے گی
جس نے ماتھے کی بندیا چرائی
رنگ ڈالی میری آتما تک
کیا منوہر کے من میں سمائی
میں نے سکھوں کو کب کچھ بتایا
بیری پائل نے ہی جا لگائی
گوپیوں سے بھی کھیلیں کنہیا
اور ہم سے بھی میٹھی لڑائی
کوئی خوشبو تو اچھی لگے گی
پھول بھر بھر کے آنچل میں لائی
شام میں توری گیاں چراؤں
مول لے لے تو میری کمائی
کرشن گوپال رستہ ہی بھولے
رادھا پیاری تو سدھ بھول آئی
سارے سر ایک مرلی کی دھن میں
ایسی رچنا بھلا کس نے گائی؟
کیسا بندھن بندھا شام مورے ؟
بات تیری سمجھ میں نہ آئی
ہاتھ پھولوں سے پہلے بنے تھے
یا کہ گجرے سے پھوٹی کلائی

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo