Hamari Adhori Kahani Shaikh Aslam Azad



ہماری ادھوری کہانی
 ہاں اگر
میں تیرے آگے آ کر
کُچھ بول نہی پاتا
چُپ ھو جاتا ھوں
بُت بن جاتا ھوں
دیوار پر ٹنگی کسی
تصّویر کی طرح لگتا ھوں
تو کیا؟
حال دل کا
آنکھوں میں عیاں نہی؟
تُم یہ پڑھتی کیوں نہی ھو؟
میں تُم سے
باتیں کرنے کے لیے
تُم سے کچہری کرنے کے لیے
کتنا بے چین ھوں
تم اس کا اندازہ کیوں
نہی لگاتیں ؟
میرے دل کی دھرتی میں
پاتال تک اُترنے والی
تُم ضَد کے آسمان پہ کیوں
کھڑی ھو؟
میرا صّدیوں کا انتظار
تُم ایک پل میں
ختم کیوں نہی کرتیں ؟
تُم یہ سب سمجھتی کیوں نہی ھو؟
کیا تُم نے دیکھا نہی کہ
پنکھڑی بھی تب تک گلاب نہی بنتی
جب تک صبح کی شبنم
اُسے نہی چُھوتی
کیا یہ بھی سچ نہی
کہ سیپ میں مُوتی
تب تک نہی جُڑتا
جب تک بارش کا کوئ قطرہ
اُس کے اندر نہی سمٹتا
ہاں 'ہاں
میں مانتا ھوں
کہ
تُو اور میں
یہ سارا جیون الگ الگ
گزار سکتے ہیں
مگر
یہ سارا جیون
بے مقصّد
بے معنّی
گزارنا عقلمندی ھے کیا؟
ارے او پگلی
تُم یہ سب سمجھتی کیوں نہی ھو؟
میں تیرے بِن ادُھورا ھوں
تُم میرے بِن ادھُوری ھے
شیخ اسلم آزاد

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo