میرے خط
شاعر اعتبار ساجد
بوک میرے خط مجھے واپس کر دو صفحہ 13 15
بوک میرے خط مجھے واپس کر دو صفحہ 13 15
انتخاب اجڑا دل
کل یے لکھتی تھی بچھرنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
ذکر پیروں میں چھنکتی زنجیر کا ہے
عذر بیماری ۓ دل گردش ۓ تقدیر کا ہے
فکر خوابوں کی بگڑتی ہوئی تعبیر کا ہے
خوف گذرے ہوۓ دن رات کی تشہیر کا ہے
گویا تم جیسا جہاں میں کوئی مجبور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
گل افرسدہ و مغموم ہو پہلے کی طرح
حرف ۓ تسکین سے محروم ہو پہلے کی طرح
ہر ستم کر کے بھی مظلوم ہو پہلے کے طرح
یعنی معصوم کی معصوم ہو پہلے کی طرح
یے الگ بات کہ چہرے پے نور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
کاش حاصل ہو تمہیں رتبۂ عالی سرکار
چشم ۓ دنیا میں رہو بن کے مثالی سرکار
یے مگر سچ ہے میری موتیوں والی سرکار
دست ۓ واحد سے تو بجتی نہیں تالی سرکار
باہمی ربط و محبت کا یے دستور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
میں صفائی کوئی دوں گا نہ وضاحت دوں گا
تم کو واپس میں تمہاری یے امانت دوں گا
پھر کبھی تم سے نہ ملنے کی ضمانت دوں گا
بس تمہیں ترکۂ مراسم پے یے زحمت دوں گا
تم ہو بے چین تو میں کوئی مسرور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
تم پے بھی قرض ہے اول مجھے واپس کر دو
میرا بیتا ہوا ہر پل مجھے واپس کر دو
میرا برسا ہوا بادل مجھے واپس کر دو
اپنے خط لے لو میرا کل مجھے واپس کر دو
یے محبت کی سحر ہے شبۂ دیجور نہیں
کل یے لکھتی تھی تمہیں بچھڑنا منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
کل یے لکھتی تھی بچھرنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
ذکر پیروں میں چھنکتی زنجیر کا ہے
عذر بیماری ۓ دل گردش ۓ تقدیر کا ہے
فکر خوابوں کی بگڑتی ہوئی تعبیر کا ہے
خوف گذرے ہوۓ دن رات کی تشہیر کا ہے
گویا تم جیسا جہاں میں کوئی مجبور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
گل افرسدہ و مغموم ہو پہلے کی طرح
حرف ۓ تسکین سے محروم ہو پہلے کی طرح
ہر ستم کر کے بھی مظلوم ہو پہلے کے طرح
یعنی معصوم کی معصوم ہو پہلے کی طرح
یے الگ بات کہ چہرے پے نور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
کاش حاصل ہو تمہیں رتبۂ عالی سرکار
چشم ۓ دنیا میں رہو بن کے مثالی سرکار
یے مگر سچ ہے میری موتیوں والی سرکار
دست ۓ واحد سے تو بجتی نہیں تالی سرکار
باہمی ربط و محبت کا یے دستور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
میں صفائی کوئی دوں گا نہ وضاحت دوں گا
تم کو واپس میں تمہاری یے امانت دوں گا
پھر کبھی تم سے نہ ملنے کی ضمانت دوں گا
بس تمہیں ترکۂ مراسم پے یے زحمت دوں گا
تم ہو بے چین تو میں کوئی مسرور نہیں
کل یے لکھتی تھی بچھڑنا تمہیں منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
تم پے بھی قرض ہے اول مجھے واپس کر دو
میرا بیتا ہوا ہر پل مجھے واپس کر دو
میرا برسا ہوا بادل مجھے واپس کر دو
اپنے خط لے لو میرا کل مجھے واپس کر دو
یے محبت کی سحر ہے شبۂ دیجور نہیں
کل یے لکھتی تھی تمہیں بچھڑنا منظور نہیں
اب یے کہتی ہو میرے خط مجھے واپس کر دو
No comments:
Post a Comment