Yakmusht De Diye Anbaar Deed Ke Ik Noumar Ne Kal Mujhe Khareed Ke



یکمشت دے دیے !
انبار دید کے
اک نو عمر نے کل
مجھے خرید کے
ھم نے اس کے سنگ
منائی چاند رات
اعلان پر اعلان !
ہوئے تھے عید کے
نظر کی سہل نے
کھلائے سرخ پھول
یوں دستخط ملے !
مجھے رسید کے
کشش بکھیرتیں !
وہ سلجھی سلوٹیں
وہ انتظام تھے،
صواب دید کے
لبوں نے موجزے !
عجیب تر کیے
تپش میں گال سے
شہد کشید کے
گرویدگی کا خبط !
برابری پہ تھا
اصول عجیب تھے
دور_جدید کے
بیعت کے بغیر !
چھوڑتے نہ تھے
جزبات سب کے سب
پسر یزید کے
وصل کی رات میں
قریب تر رہے
اقرار کے گگن،
تارے پدید کے
سینے سے اٹھی !
سسکیوں کے نام
دھمال چوکڑی !
نعرے ناہید کے
حسن کے آداب !
آنکھ میں مگن
عشق کے چلن،
چلن مرید کے
رزب وہ میرا خواب
حسین حادثہ !
بدن کی ریاست
طبل نوید کے
رزب تبریز

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo