اَب آ بھی جاؤ کہ شام و سَحر کُھلے ہوئے ہیں
تُمہارے واسطے آنکھوں کے در کُھلے ہوئے ہیں
وہ ماہتاب ابھی تک نہیں کھلا ہم پر
اَبھی تو رنگ بہت مُختصر کھُلے ہوئے ہیں
کُھلے ہوئے ہیں جہانوں کے در اُسی جانب
تَرے جمال کے دفتر جِدھر کُھلے ہوئے ہیں
تُو میرے سامنے آیا تو ایسے لگتا ھے
ہزاروں آئینے پیش ِ نظر کُھلے ہوئے ہیں
اُنہیں سمجھنے میں یہ مسئلہ بھی ہے درپیش
وہ لوگ مُجھ پہ بہت مختصر کُھلے ہوئے ہیں
اٹھا رہا ہوں میں لذت سفر کی ہر لمحہ
مرے وجود پہ کتنے سفر کھلے ہوئے ہیں
سزائیں سہنے سے ڈرتے نہیں ہیں اہلِ جنوں
ہماری جان پہ وحشت کے در کھلے ہوئے ہیں
قفس سے دیکھ رہے ہیں ، بس آسماں عدنان
پرند قید ہیں اور بال و پر کُھلے ہوئے ہیں
وہ میرے پاس بھی ہے اور پاس ہے بھی نہیں
تضاد کیسے یہ عدنان اثر کُھلے ہوئے ہیں
عدنان اثر
No comments:
Post a Comment