Ab Tak Mere Geeton Mein Umeed Bhi Thi Paspaai Bhi,Maut K Qadmon Ki Aahat Bhi Jeewan Ki Angrrai Bhi


شاعر ساحر لدھیانوی

اب تک میرے گیتوں میں امید بھی تھی پسپائی بھی

موت کے قدموں کی آہٹ بھی جیون کی انگڑائی بھی

مستقبل کی کرنیں بھی تھیں حال کی بوجھل ظلمت بھی

طوفانوں کا شور بھی تھا اور خوابوں کی شہنائی بھی

آج سے میں اپنے گیتوں میں آتش پارے بھر دوں گا

مدھم لچکیلی تانوں میں جیوٹ دھارے بھر دوں گا

جیون کے اندھیارے پتھر پر مشعل لے کر نکلوں گا

دھرتی کے پھیلے آنچل میں سرخ ستارے بھر دوں گا

آج سے اے مذدورو کسانو میرے گیت تمہارے لیۓ ہیں

فاقہ کش انسانو میرے جوگ بہاگ تمہارے لیۓ ہیں

جب تک تم بھوکے ننگے ہو یہ نغمے خاموش نہ ہوں گے

جب تک بے آرام ہو تم یہ نغمے راحت کوش نہ ہوں گے

مجھ کو اس کا رنج نہیں ہے لوگ مجھے فنکار نہ مانیں

فکر و فن کے تاجر میرے شعروں کو اشعار نہ مانیں

میرا فن امیدیں آج سے تم کو ارپن ہیں

آج سے میرے گیت تمہارے دکھ اور سکھ کادرپن ہیں

تم سے قوت لے کر اب میں تم کو راہ دکھاؤں گا

تم پرچم لہرانا ساتھی میں بربط پر گاؤں گا

آج سے میرے فن کا مقصد زنجیریں پگھلانا ہے

آج سے میں شبنم کے بدلے انگارے برساؤں گا


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo