چار سُو پھیل گیا خوف قہرمانی کا
سب کو ھے مسئلہ درپیش نگہبانی کا
غیرتِ مسلمِ خوابیدہ جگادو اب تو
مٹتا جاتا ھے یہاں فرق لہو پانی کا
پھول سے بچوں کی جانوں کو کچلنے والے
نامِ مسلم پہ تُو دھبہ ہے پشیمانی کا
دلکشی میرے وطن کی نہ کبھی بھی کم ہو
اس پہ سایہ نہ پڑے دشتِ کی ویرانی کا
ہم وہ رُسوائے زمانہ کہ خدا نے جن کو
اجر بخشا ہے عطاؤں کی فراوانی کا
مسکرا کر میں وطن پر سے فدا ہو جاؤں
رنگ لائے گا یہی خوں مری قربانی کا
جبر کی رات ڈھلے گی یہ یقیں رکھ عاصم
دیکھو سورج وہ نکلتا ہے درخشانی کا
عاصم حجازی
No comments:
Post a Comment