کاش ہم خوشبو کے دیوانوں کو بھی ملتے گلاب
آپ کے ہونٹوں پہ کھلتے اور ہم چنتے گلاب
پہلے بھی خوشبو تھی ان میں ہاں مگر اتنی نہیں
آپ کے ہاتھوں کو چھو کر اور بھی مہکے گلاب
آپ کو سوچا ہوئے ہم حسن گل سے آشنا
کیا غزل کا در کھلا یک دم کھلے اتنے گلاب
آپ تھوڑا رک سکیں گر وقت تو ٹھہرا نہیں
کب کِھلیں گے اِس صدی میں جانیے پھر سے گلاب
ہم فلک پہ جا کے دیکھیں گے کبھی اک روز تو
کس طرح چمکے ستارہ، کس طرح مہکے گلاب
کس نگر سے ہو کے آئے ، کس کے دست ِ ناز نے
نقرئ لیروں کے آنچل پر حسیں ٹانکے گلاب
انیتا یعقوب
No comments:
Post a Comment