شاعرہ پروین شاکر
انتخاب اجڑا دل
کچے زخموں سے بدن سجنے لگے راتوں کے
سبز تحفے مجھے آنے لگے برساتوں کے
جیسے سب رنگ دھنک کے مجھے چھونے آۓ
عکس لہراتے ہیں آنکھوں میں میری ساتوں کے
بارشیں آئیں اور آنے لگے خوش رنگ عذاب
جیسے صندوقچے کھلنے لگے سوغاتوں کے
چھوکے گزری تھی ذرا جسم کو بارش کی ہوا
آنچ دینے لگے ملبوس جواں راتوں کے
پہروں باتیں وہ ہری بیلوں کے ساۓ ساۓ
واقعے خوب ہوۓ ایسی ملاقاتوں کے
قریۂ جاں میں کہاں اب وہ سخن کے موسم
سوچ چمکاتی رہے رنگ گئی باتوں کے
کن لکیروں کی نظر سے تیرا رستہ دیکھوں
نقش معدوم ہوۓ جاتے ہیں ان ہاتھوں کے
تو مسیحا ہے بدن تک ہے تیری چارہ گری
تیرے امکاں میں کہاں زخم کڑی باتوں کے
قافلے نکہت و انوار کے بے سمت ہوۓ
جب سے دولھا نہیں ہونے لگے باراتوں کے
پھر رہے ہیں میرے اطراف میں بے چہرا وجود
اس کا کیا نام ہے یے لوگ ہیں کن ذاتوں کے
آسمانوں میں وہ مصروف بہت ہے یا پھر
بانجھ ہونے لگے الفاظ مناجاتوں کے
سبز تحفے مجھے آنے لگے برساتوں کے
جیسے سب رنگ دھنک کے مجھے چھونے آۓ
عکس لہراتے ہیں آنکھوں میں میری ساتوں کے
بارشیں آئیں اور آنے لگے خوش رنگ عذاب
جیسے صندوقچے کھلنے لگے سوغاتوں کے
چھوکے گزری تھی ذرا جسم کو بارش کی ہوا
آنچ دینے لگے ملبوس جواں راتوں کے
پہروں باتیں وہ ہری بیلوں کے ساۓ ساۓ
واقعے خوب ہوۓ ایسی ملاقاتوں کے
قریۂ جاں میں کہاں اب وہ سخن کے موسم
سوچ چمکاتی رہے رنگ گئی باتوں کے
کن لکیروں کی نظر سے تیرا رستہ دیکھوں
نقش معدوم ہوۓ جاتے ہیں ان ہاتھوں کے
تو مسیحا ہے بدن تک ہے تیری چارہ گری
تیرے امکاں میں کہاں زخم کڑی باتوں کے
قافلے نکہت و انوار کے بے سمت ہوۓ
جب سے دولھا نہیں ہونے لگے باراتوں کے
پھر رہے ہیں میرے اطراف میں بے چہرا وجود
اس کا کیا نام ہے یے لوگ ہیں کن ذاتوں کے
آسمانوں میں وہ مصروف بہت ہے یا پھر
بانجھ ہونے لگے الفاظ مناجاتوں کے
No comments:
Post a Comment