رضائے عشق کو تسلیم کرنا پڑتا ہے
کسی کو زندگی دینے کو مرنا پڑتا ہے
کنواں ہو نہر ہو یا ریت کا سمندر ہو
کہ اپنے حصے کا پانی تو بھرنا پڑتا ہے
یہی ہے ریت محبت کی ، ضابطہ ہے یہی
جو بھول جائے اسے یاد کرنا پڑتا ہے
تماشہ دیکھ رہا ہے وہ ساحلوں پہ کھڑا
سو مجھ کو ڈوب کے پھر سے ابھرنا پڑتا ہے
یہ خار خار مسافت ، یہ عشق کا صحرا
یہاں سے اہلِ وفا کو گزرنا پڑتا ہے
دلشاد نسیم
No comments:
Post a Comment