شاعر ساحر لدھیانوی
سنگیں حقائق زاروں میں
خوابوں کی ردائیں جلتی ہیں
پھر دو دل ملنے آۓ ہیں
پھر موت کی آندھی اٹھی ہے
پھر جنگ کے بادل چھاۓ ہیں
میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی
اپنی ہی طرح انجام نہ ہو
ان کا بھی جنوں ناکام نہ ہو
ان کے بھی مقدر میں لکھی
اک خون میں لتھڑی شام نہ ہو
سورج کے لہو میں لتھری ہوئی
وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا
انجام ہے اب تک یاد مجھے
ہمارا پیار حوادث کی تاب لا نہ سکا
مگر انہیں تو مرادوں کی رات مل جاۓ
ہمیں تو کشمکشء مرگء بے امان ہی ملی
انہیں تو جھومتی گاتی حیات مل جاۓ
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلا سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے یہ ہے خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں
بہت دنوں سے محبت پناہ ڈھنڈتی ہے
بہت دنوں سے ستم دیدہ شاہراہوں میں
نگار زیست کی عصمت پناہ ڈھونڈتی ہے
چلو کہ آج سبھی پائمال روحوں سے
کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں
ہمارا راز ہمارا نہیں سبھی کا ہے
چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کر لیں
چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں
کہ ہم کو جنگ کے چلن سے نفرت ہے
جسے لہو کے سوا کوئی رنگ راس نہ آۓ
ہمیں حیات کے اس پیرہن سے نفرت ہے
کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جاۓ گے
ہر ایک موجء ہوا رخ بدل کے جھپٹے گی
اٹھو کہ آج ہر اک جنگجو سے یہ کہہ دیں
کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے
کہو کہ اب کوئی تاجر ادھر کا رخ نہ کرے
اب اس جگہ کوئی کنواری نہ بیچی جاۓ گی
یہ کھیت جاگ پڑے اٹھ کھڑی ہوئیں فصلیں
اب اس جگہ کوئی کیاری نہ بیچی جاۓ گی
یہ سر زمیں ہے گوتم کی اور نانک کی
اس ارضء پاک پہ وحشی نہ چل سکیں گے کبھی
ہمارا خون امانت ہے نسلء نو کے لیے
ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوۓ خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھائی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں..*
ختم شدہ
خوابوں کی ردائیں جلتی ہیں
پھر دو دل ملنے آۓ ہیں
پھر موت کی آندھی اٹھی ہے
پھر جنگ کے بادل چھاۓ ہیں
میں سوچ رہا ہوں ان کا بھی
اپنی ہی طرح انجام نہ ہو
ان کا بھی جنوں ناکام نہ ہو
ان کے بھی مقدر میں لکھی
اک خون میں لتھڑی شام نہ ہو
سورج کے لہو میں لتھری ہوئی
وہ شام ہے اب تک یاد مجھے
چاہت کے سنہرے خوابوں کا
انجام ہے اب تک یاد مجھے
ہمارا پیار حوادث کی تاب لا نہ سکا
مگر انہیں تو مرادوں کی رات مل جاۓ
ہمیں تو کشمکشء مرگء بے امان ہی ملی
انہیں تو جھومتی گاتی حیات مل جاۓ
بہت دنوں سے ہے یہ مشغلا سیاست کا
کہ جب جوان ہوں بچے تو قتل ہو جائیں
بہت دنوں سے یہ ہے خبط حکمرانوں کا
کہ دور دور کے ملکوں میں قحط بو جائیں
بہت دنوں سے محبت پناہ ڈھنڈتی ہے
بہت دنوں سے ستم دیدہ شاہراہوں میں
نگار زیست کی عصمت پناہ ڈھونڈتی ہے
چلو کہ آج سبھی پائمال روحوں سے
کہیں کہ اپنے ہر اک زخم کو زباں کر لیں
ہمارا راز ہمارا نہیں سبھی کا ہے
چلو کہ سارے زمانے کو رازداں کر لیں
چلو کہ چل کے سیاسی مقامروں سے کہیں
کہ ہم کو جنگ کے چلن سے نفرت ہے
جسے لہو کے سوا کوئی رنگ راس نہ آۓ
ہمیں حیات کے اس پیرہن سے نفرت ہے
کہو کہ اب کوئی قاتل اگر ادھر آیا
تو ہر قدم پہ زمیں تنگ ہوتی جاۓ گے
ہر ایک موجء ہوا رخ بدل کے جھپٹے گی
اٹھو کہ آج ہر اک جنگجو سے یہ کہہ دیں
کہ ہم کو کام کی خاطر کلوں کی حاجت ہے
ہمیں کسی کی زمیں چھیننے کا شوق نہیں
ہمیں تو اپنی زمیں پر ہلوں کی حاجت ہے
کہو کہ اب کوئی تاجر ادھر کا رخ نہ کرے
اب اس جگہ کوئی کنواری نہ بیچی جاۓ گی
یہ کھیت جاگ پڑے اٹھ کھڑی ہوئیں فصلیں
اب اس جگہ کوئی کیاری نہ بیچی جاۓ گی
یہ سر زمیں ہے گوتم کی اور نانک کی
اس ارضء پاک پہ وحشی نہ چل سکیں گے کبھی
ہمارا خون امانت ہے نسلء نو کے لیے
ہمارے خون پہ لشکر نہ پل سکیں گے کبھی
کہو کہ آج بھی ہم سب اگر خموش رہے
تو اس دمکتے ہوۓ خاکداں کی خیر نہیں
جنوں کی ڈھائی ہوئی ایٹمی بلاؤں سے
زمیں کی خیر نہیں آسماں کی خیر نہیں
گزشتہ جنگ میں گھر ہی جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ تنہائیاں بھی جل جائیں
گزشتہ جنگ میں پیکر جلے مگر اس بار
عجب نہیں کہ یہ پرچھائیاں بھی جل جائیں
تصورات کی پرچھائیاں ابھرتی ہیں..*
ختم شدہ
No comments:
Post a Comment