تھی اس کے لیے خواب کی تعبیر، کوئی ہیر
کرتی تھی نہ رانجھے کو جو تسخیر، کوئی ہیر
ہوتی ہے وہ عزت بھی، وہ بیٹی بھی، حیا بھی
کیوں پہنے فقط عشق کی زنجیر، کوئی ہیر
اس درجہ تمہیں پاسِ زمانہ ہے بھلا کیوں
کیا تم نہ کرو گے کبھی تعمیر کوئی ہیر
الزام تو آتا ہے فقط عشق کے سر ہی
رانجھن کی تو کرتی نہیں تحقیر کوئی ہیر
تو بھی تو کبھی سوچ مری ذات کے محور
کیا آپ ہی کرتی رہے تدبیر کوئی ہیر
اب کون سنائے گا رباب عشق صحیفہ
کرتی جو نہیں اب کوئی تفسیر، کوئی ہیر
فوزیہ رباب
No comments:
Post a Comment