تُو نے چاہا تھا کہ میں ٹوٹ کے چاہوں تجھ کو
وقت آنے پہ مری جان یہ دیکھا تُو نے
اپنے اس پیکرِ کمزور پہ لادے میں نے
تیری دن بھر کی تھکن، درد کے کتنے انبار
تیری راتوں کی چبھن، جسم کی مایوس پکار
اور پھر مرحلہء شوق میں رکھے جو قدم
میں بھٹکتا ہی رہا شہر کی گلیوں میں مدام
طنز کچھ ایسے ملے جن پہ ہو تعریف نثار
دشتِ غربت میں ملے جس طرح کوئی خوددار
راہ چلتے ہوئے دیکھے کئی ذہنی بیمار
قتل و غارت سے بھرے شہر کے سارے اخبار
پھر ترے پیار کو اور ملک کے اس منظر کو
اس قدر ٹوٹ کے چاہا کہ میں خود ٹوٹ گیا
تو نے چاہا تھا کہ میں ٹوٹ کے چاہوں تجھ کو؟؟
No comments:
Post a Comment