(Wo Aurat Thi) Khala Ki Mushkilaat Apni Jagah Qaim Thein



 "وہ عورت تھی"

خلا کی مُشکلات اپنی جگہ قائم تھیں ، اور دنیا
اُجڑتی، بھُربھری ، بنجر زمینوں کی نشانی تھی
ستارے سُرخ تھے، اور چاند سورج پر اندھیروں کا بسیرا تھا
درختوں پر پرندوں کی جگہ ویرانیوں کے گھونسلے ہوتے
زمیں کی کوک میں بس تھور تھا، اور خار اُگتے تھے
ہوا کو سانس لینے میں بہت دُشواریاں ہوتیں
تو پھر اُس نور والے نے کوئی لوحِ انارہ بھیج دی شاید
اندھیرے روشنی پہ کس طرح ایمان لے آئے
بلائیں کس طرح پریوں کی صورت میں چلی آئیں
یہ کِس ” نورل ثویبا ” کی خدا تخلیق کر بیٹھا
یہ نرمی ، دلبری ، شرم و حیا تخلیق کر بیٹھا
وہ ” نورل ” وہ ” ثویبا ” جس کی خاطر آسماں سے رنگ اُترے تھے
وہ جس کے دَم سے دنیا پر نزاکت کا وجود آیا
خدائے خلق نے ” نورل ” سے پہلے ہی ہوس تخلیق کر دی تھی
نزاکت تک ہوس کی دسترس تخلیق کر دی تھی
ہزاروں سال بیتے ہیں مگر فطرت نہیں بدلی
نگاہیں اب بھی بھوکی ہیں کہ جیسے کھا ہی جائیں گی
ہوس زادوں نے کیسے نور سے منہ پر ملی کالک
ہر اِک رشتہ ضرورت کے مطابق کس لیے بدلا
ہوس زادو۔۔۔ بدن خورہ۔۔۔۔ ذرا سی شرم فرماؤ
وہ ” نورل ” وہ ” ثویبا ” زندگی کا استعارہ تھی
کبھی حَوّا ، کبھی مریم، کبھی لوحِ انارہ تھی
وہ ” عورت ” تھی ۔۔۔۔۔

ڈاکٹر وقار خان


No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo