نہ پھر طوفان کا ڈر ہو
وہ ساحل دور ہے شاید
وہ ساحل دور ہے شاید
سفینے جو جلاتی ہے
وہ مشکل دور ہے شاید
وہ مشکل دور ہے شاید
جو سمجھے چال دشمن کی
وہ گھائل دور ہے شاید
جہاں انسان ہیں بستے
وہ جنگل دور ہے شاید
نہ پھر ڈرنا ڈرانا ہو
وہ محفل دور ہے شاید
اندهیروں کو جو لے جائے
ابھی کل دور ہے شاید
دل مسلم کو گرمائے
وہ ہلچل دور ہے شاید
رہے سجدوں میں جو ہر پل
وہ سائل دور ہے شاید
سروں کو ڈھانپ کے رکھے
وہ آنچل دور ہے شاید
جو رحمت بن کے اب برسے
وہ بادل دور ہے شاید
سفر یہ رک نہیں سکتا
گو منزل دور ہے شاید
وہ گھائل دور ہے شاید
جہاں انسان ہیں بستے
وہ جنگل دور ہے شاید
نہ پھر ڈرنا ڈرانا ہو
وہ محفل دور ہے شاید
اندهیروں کو جو لے جائے
ابھی کل دور ہے شاید
دل مسلم کو گرمائے
وہ ہلچل دور ہے شاید
رہے سجدوں میں جو ہر پل
وہ سائل دور ہے شاید
سروں کو ڈھانپ کے رکھے
وہ آنچل دور ہے شاید
جو رحمت بن کے اب برسے
وہ بادل دور ہے شاید
سفر یہ رک نہیں سکتا
گو منزل دور ہے شاید
No comments:
Post a Comment