Aik Zameen , Saat Shair ... Raees Amrohvi,Shaad Azeem Abadi,Wasif Ali Wasif,Adeem Hashmi,Hafeez Jalandhri,Majeed Lahori,Shahzad Qais


ایک دلچسپ حسن اتفاق
******************
عزیز دوستو ایک ھی زمین پر دو ، تین شاعروں کا کلام تو مل جاتا ھے مگر آج ھم آپ کے لیے ایک دلچسپ زمین لے کر آئے ھیں جس پر ایک دو نہیں سات شاعروں نے لکھا ھے۔ پڑھیے اور لطف اندوز ھوں۔
ایک زمین، سات شاعر
************
کلام رئیس امروہوی
************
جہاں معبود ٹھہرايا گيا ہوں
وہيں سولی پہ لٹکايا گيا ہوں
سنا ہر بار ميرا کلمۂ صدق
مگر ہر بار جھٹلايا گيا ہوں
عجب اک سّرِ مبہم ہے مری ذات
نہ سمجھا ہوں نہ سمجھايا گيا ہوں
مرے نقشِ قدم نظروں سے اوجھل
مگر ہر موڑ پر پايا گيا ہوں
کبھی ماضی کا جيسے تذکرہ ہو
زباں پر اس طرح لايا گيا ہوں
مثالِ وحی حق انسانيت کے
ہر اک وقفے ميں دہرايا گيا ہوں
جو موسیٰ ہوں تو ٹھکرايا گيا تھا
جو عيسیٰ ہوں تو جھٹلايا گيا ہوں
جہاں ہے رسم قتلِ انبيا کی
وہاں مبعوث فرمايا گيا ہوں
بطورِ فديہ قرباں گاہ کی جانب
کہاں سے ہانک کر لايا گيا ہوں
مری تدفين باقی ہے ابھی تو
لہو سے اپنے نہلايا گيا ہوں
دوامی عظمتوں کے مقبرے ميں
ہزاروں بار دفنايا گيا ہوں
ميں اس حيرت سرائے آب و گِل ميں
بحکمِ خاص بھجوايا گيا ہوں
کوئ مہمان ناخواندہ نہ سمجھے
بصد اصرار بلوايا گيا ہوں
بطورِ ارمغاں لايا گيا تھا
بطورِ ارمغاں لايا گيا ہوں
ترس کيسا کہ اس دارالبلا ميں
ازل کے دن سے ترسايا گيا ہوں
اساسِ ابتلا محکم ہے مجھ سے
کہ ديواروں ميں چنوايا گيا ہوں
کبھی تو نغمہء داؤد بن کر
سليماں کے لئے گايا گيا ہوں
کبھي يعقوب کے نوحے ميں ڈھل کر
در محبس پہ دہرايا گيا ہوں
ظہور و غيب و پيدا و نہاں کيا
کہيں کھويا کہيں پايا گيا ہوں
نجانے کونسے سانچے ميں ڈھاليں
ابھی تو صرف پگھلايا گيا ہوں
جہاں تک مہرِ روز افروز پہنچا
وہيں تک صورتِ سايہ گيا ہوں
************
شاد عظیم آبادی
************
تمناؤں میں اُلجھایا گیا ہُوں
کِھلونے دے کے بہلایا گیا ہُوں
ہُوں اُس کوچے کے ہر ذرّے سے واقف
اُدھر سے مُدّتوں آیا گیا ہُوں
نہیں اُٹھتے قدم کیوں جانب دیر
کسی مسجد میں بہکایا گیا ہُوں
دلِ مُضطر سے پوچھ اے رونقِ بزْم
میں آپ آیا نہیں، لایا گیا ہُوں
سویرا ہے بُہت اے شور محْشر
ابھی بیکار اُٹھوایا گیا ہُوں
ستایا آکے پہْروں آرزُو نے
جو دم بھرآپ میں پایا گیا ہُوں
نہ تھا میں، مُعْتقد اعجازِ مے کا
بڑِی مُشکل سے منوایا گیا ہُوں
لحد میں کیوں نہ جاؤں منہ چھپائے
بھری محفل سے اُٹھوایا گیا ہُوں
عدم میں کس نے بُلوایا ہے مُجھ کو
کہ ہاتھوں ہاتھ پُہنچایا گیا ہُوں
کُجا میں اور کُجا اے شاد، دُنیا
کہاں سے کِس جگہ لایا گیا ہُوں
************
واصف علی واصف
************
نہ آیا ہوں نہ میں لایا گیا ہوں
میں حرفِ کن ہوں فرمایا گیا ہوں
میری اپنی نہیں ہے کوئی صورت
ہر اک صورت سے بہلایا گیا ہوں
بہت بدلے میرے انداز لیکن
جہاں کھویا وہیں پایا گیا ہوں
وجودِ غیر ہو کیسے گوارا
تیری راہوں میں بے سایا گیا ہوں
نجانے کون سی منزل ہے واصف
جہاں نہلا کے بلوایا گیا ہوں
************
عدیم ہاشمی
************
فلک سے خاک پر لایا گیا ہوں
کہاں کھویا کہاں پایا گیا ہوں
میں زیور ہوں عروسِ زِندگی کا
بڑے تیور سے پہنایا گیا ہوں
نہیں عرض و گزارش میرا شیوہ
صدائے کُن میں فرمایا گیا ہوں
بتا اے انتہائے حسنِ دنیا
میں بہکا ہوں کہ بہکایا گیا ہوں
مجھے یہ تو بتا اے شدتِ وصل
میں لِپٹا ہوں کہ لِپٹایا گیا ہوں
بدن بھیگا ہوا ہے موتیوں سے
یہ کِس پانی سے نہلایا گیا ہوں
اگر جانا ہی ٹھہرا ہے جہاں سے
تو میں دنیا میں کیوں لایا گیا ہوں
یہ میرا دل ہے یا تیری نظر ہے
میں تڑپا ہوں کہ تڑپایا گیاہوں
مجھے اے مہرباں یہ تو بتا دے
میں ٹھہرا ہوں کہ ٹھہرایا گیا ہوں
تِری گلیوں سے بچ کر چل رہا تھا
تِری گلیوں میں ہی پایا گیا ہوں
جہاں روکی گئی ہیں میری کِرنیں
وہاں میں صورتِ سایہ گیا ہوں
عدیم اِک آرزو تھی زِندگی میں
اُسی کے ساتھ دفنایا گیا ہوں
************
حفیظ جالندھری
************
جہاں قطرے کو ترسایا گیا ہوں
وہیں ڈوبا ہوا پایا گیا ہوں
بلا کافی نہ تھی اک زندگی کی
دوبارہ یاد فرمایا گیا ہوں
سپرد خاک ہی کرنا ہے مجھ کو
تو پھر کاہے کو نہلایا گیا ہوں
اگرچہ ابرِ گوہر بار ہوں میں
مگر آنکھوں سے برسایا گیا ہوں
کوئی صنعت نہیں مجھ میں تو پھر کیوں
نمائش گاہ میں لایا گیا ہوں
مجھے تو اس خبر نے کھو دیا ہے
سنا ہے میں کہیں پایا گیا ہوں
حفیظ اہل زباں کب مانتے تھے
بڑے زوروں سے منوایا گیا ہوں
************
مجید لاہوری
************
نئی الجھن میں الجھایا گیا ہوں
بنگلہ دے کے بنگلایا گیا ہوں
ہر اِک موقع پہ ٹرخایا گیا ہوں
حسیں وعدوں سے بہلایا گیا ہوں
کبھی بنگلوں میں بلوایا گیا ہوں
کبھی فٹ پاتھ پر پایا گیا ہوں
اِدھر کرسی پہ بٹھلایا گیا ہوں
اُدھر محفل سے اٹھوایا گیا ہوں
وہ گلیاں اب بھی شاداب و جواں ہیں
جہاں میں بار ہا آیا گیا ہوں
بناتے تھے مجھے کب لوگ ممبر
میں آرڈر دے کے بنوایا گیا ہوں
مجید اہلِ جہاں کب جانتے تھے
بڑی مشکل سے جنوایا گیا ہوں
*** *** *** *** *** *** *** ***
شہزادقیس
*** *** *** *** *** *** *** ***
کئی خط لکھ کے بلوایا گیا ہُوں
سلیقے سے میں ٹھکرایا گیا ہُوں
کھلونے توڑ دیتا تھا میں شاید
تسلی دے کے بہلایا گیا ہُوں
کئی اَزلوں کی واحد اِلتجا ہُوں
خدا سے کہہ کے بنوایا گیا ہُوں
فقط اِک چھَن پہ سر دُھننے کی خاطر
ہزاروں بار جڑوایا گیا ہُوں
مجھے دیوار کا شک تک نہیں ہے
بدن میں خوب چنوایا گیا ہُوں
میں اَپنے خول پہ عاشق نہیں تھا
میں اَپنے حق میں اُکسایا گیا ہُوں
مجھے جنت کی ہر نعمت پہ شک ہے
جہاں میں اِتنا ترسایا گیا ہُوں
غبارہ ہو کے بھی کچھ مطمئن ہُوں
کسی بچے کو پکڑایا گیا ہُوں
ہے جبر و اِختیار اِتنا سا صاحب
میں اَپنی مرضی سے لایا گیا ہُوں
مرا اور سیپ کا یہ اَلمیہ ہے
میں چند لمحوں کو اَپنایا گیا ہُوں
خِرد رَستہ دِکھائے قیس کیسے
خِرد میں ہی تو اُلجھایا گیا ہُوں

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo