فروزاں آنکھیں ہوئی ہیں ایسے گویا
شمع سی جل رہی ھے
کسی پہ اس کی خبر کھلی ہے سو
شرم تن پر مچل رہی ھے
میں جانتا ہوں بےچینی اس کی میری
نگاہ پہ یقین هے مجھ کو
اگرچہ پردہ پڑا هے رخ پہ مگر وہ
خود میں ٹہل رہی ہے
یہی حقیقت هے عشق دلدل نہیں
هے اس میں دروغ گوئی
جہاں وہ چلتی تھی احتیاطاً وہیں پہ
اب وہ پھسل رہی ھے
ھے پل میں تولہ ھے پل میں ماشہ
عجیب سا ھے مزاج اس کا
ابھی وہ بگڑی تھی آئینے پہ ابھی
وہ کپڑے سے مل رہی ھے
شب_وصل کی تو بات ہی کیا شب_ہجر
بھی حسیں ھےاس کو
ھیں پاس اس کے ہزار حیلے وہ
ان میں پہلو بدل رہی ھے
یہ غنچہ و گل، یہ ماہ و انجم، یہ
شوخیوں کے حسین گوہر
یہ سب اسی کی نقل کے حامل وہ
فطرتوں میں اصل رہی ھے
غزل کے فن کی بساط_رنگ پر، رزب
کو رنگ ریز کہنے والی
وہ میری باتوں کے معنیوں میں حرف
کے دریا میں شل رہی ھے
(رزب تبریز)
شمع سی جل رہی ھے
کسی پہ اس کی خبر کھلی ہے سو
شرم تن پر مچل رہی ھے
میں جانتا ہوں بےچینی اس کی میری
نگاہ پہ یقین هے مجھ کو
اگرچہ پردہ پڑا هے رخ پہ مگر وہ
خود میں ٹہل رہی ہے
یہی حقیقت هے عشق دلدل نہیں
هے اس میں دروغ گوئی
جہاں وہ چلتی تھی احتیاطاً وہیں پہ
اب وہ پھسل رہی ھے
ھے پل میں تولہ ھے پل میں ماشہ
عجیب سا ھے مزاج اس کا
ابھی وہ بگڑی تھی آئینے پہ ابھی
وہ کپڑے سے مل رہی ھے
شب_وصل کی تو بات ہی کیا شب_ہجر
بھی حسیں ھےاس کو
ھیں پاس اس کے ہزار حیلے وہ
ان میں پہلو بدل رہی ھے
یہ غنچہ و گل، یہ ماہ و انجم، یہ
شوخیوں کے حسین گوہر
یہ سب اسی کی نقل کے حامل وہ
فطرتوں میں اصل رہی ھے
غزل کے فن کی بساط_رنگ پر، رزب
کو رنگ ریز کہنے والی
وہ میری باتوں کے معنیوں میں حرف
کے دریا میں شل رہی ھے
(رزب تبریز)
No comments:
Post a Comment