رَمضان جا رَہا ہے اور عید آ رہی ہے
یا رَب صنم جدا ہے اور عید آ رہی ہے
یا رَب صنم جدا ہے اور عید آ رہی ہے
غربت کا مارا کوئی ، پٹری پہ عید والی
سر رَکھ کے رو رَہا ہے اور عید آ رہی ہے
سر رَکھ کے رو رَہا ہے اور عید آ رہی ہے
کیسا چراغاں صاحب ، اَب کی تو بارِشوں سے
گھر ٹوٹنے لگا ہے اور عید آ رہی ہے
گھر ٹوٹنے لگا ہے اور عید آ رہی ہے
دِل دَھک سے رِہ گیا جو ، یک دَم خیال آیا
اِک سال ہو چلا ہے اور عید آ رہی ہے
اِک سال ہو چلا ہے اور عید آ رہی ہے
یہ ظلم ہے سراسر ، پہلے ہی دِل ہمارا
مر مر کے چپ ہُوا ہے اور عید آ رہی ہے
مر مر کے چپ ہُوا ہے اور عید آ رہی ہے
دِل غم کا آبلہ ہو تو رونے کی بجائے
ہنسنا کڑی سزا ہے اور عید آ رہی ہے
ہنسنا کڑی سزا ہے اور عید آ رہی ہے
حیرت سے دَم بخود ہوں ، اِس بار کیا ہُوا کہ
خط تک نہیں ملا ہے اور عید آ رہی ہے
خط تک نہیں ملا ہے اور عید آ رہی ہے
وَحشت نے یوں پڑھا ہے ، تنہائی کا صحیفہ
دِل سخت بھر گیا ہے اور عید آ رہی ہے
دِل سخت بھر گیا ہے اور عید آ رہی ہے
پنجرے کو زَخمی کر کے ، اُمید کا کبوتر
دَم سادھ کر کھڑا ہے اور عید آ رہی ہے
دَم سادھ کر کھڑا ہے اور عید آ رہی ہے
بانہوں میں عید ہو گی ، جس نے کیا تھا وعدہ
بانہوں میں جا چکا ہے اور عید آ رہی ہے
بانہوں میں جا چکا ہے اور عید آ رہی ہے
جانم ! اِس عید پر ہم ، چلتے ہیں قیس کے گھر
دُشمن نے یہ کہا ہے اور عید آ رہی ہے
دُشمن نے یہ کہا ہے اور عید آ رہی ہے
شہزادقیس کی کتاب "عید" سے انتخاب
No comments:
Post a Comment