جس سمت بھی دیکھوں نظر آتا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
یہ خواب ہے، خوشبو ہے، کہ جھونکا ہے، کہ پل ہے
یہ دھند ہے، بادل ہے، کہ سایہ ہے کہ تم ہو
یہ دھند ہے، بادل ہے، کہ سایہ ہے کہ تم ہو
اس دید کی ساعت میں کئی رنگ ہے لرزاں
میں ہوں کہ کوئی اور ہے، دنیا ہے کہ تم ہو
میں ہوں کہ کوئی اور ہے، دنیا ہے کہ تم ہو
دیکھو یہ کسی اور کی آنکھیں ہیں کہ میری
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو
دیکھوں یہ کسی اور کا چہرہ ہے کہ تم ہو
یہ عمرِ گریزاں کہیں ٹھہرے تو یہ جانوں
ہر سانس میں مجھ کو یہ لگتا ہے کہ تم ہو
ہر سانس میں مجھ کو یہ لگتا ہے کہ تم ہو
ہر بزم میں موضوعِ سخن دل زدگاں کا
اب کون ہے؟ شیریں ہے کہ لیلٰی ہے کہ تم ہو
اب کون ہے؟ شیریں ہے کہ لیلٰی ہے کہ تم ہو
اک درد کا پھیلا ہوا صحرا ہے کہ میں ہوں
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو
اک موج میں آیا ہوا دریا ہے کہ تم ہو
وہ وقت نہ آئے کہ دلِ زار بھی سوچے
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو
اس شہر میں تنہا کوئی ہم سا ہے کہ تم ہو
آباد ہم آشفتہ سروں سے نہیں مقتل
یہ رسم بھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو
یہ رسم بھی شہر میں زندہ ہے کہ تم ہو
اے جانِ فراز اتنی بھی توفیق کسے تھی
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو
احمد فراز
ہم کو غمِ ہستی بھی گوارا ہے کہ تم ہو
احمد فراز
No comments:
Post a Comment