کہتے ہیں شہناز کے ساتھ گزاری
زیدی صاحب کی
آخری رات جس کی صبح وہ اس
جہاں میں نہیں تھے۔
اس کی وجہ
"ساقی نے کچھ
ملا نہ دیا ہو شراب میں۔۔"
تھا۔
معلوم نہیں سچ
ہے کہ نہیں ۔۔۔
شہناز گل پر لکھی گئی نظم
(شہناز )
جو بھی تھا،چاکِ گریبان کا تماشائی تھا
تو نہ ہوتی تو یہ تدبیرِ رفو کرتا کون؟
ایک ہی ساغرِ زہر اب بہت کافی تھا
دوسری بار تمنّائے سبو کرتا کون ؟
تیرے چہرے پہ جو تقدیس نہ ہوتی ایسی
دل کے موّاجِ سمندر میں وضو کرتا کون؟
تو نے اندیشئہ فرداں کو سمجھنے پر بھی
میرے امروز کو ہر فکر سے بالا رکھّا
لے چلی تھی مجھے ذرّوں کی طرح بادِ سموم
تم نے ہیروں کی طرح مجھ کو سنبھالے رکھّا
اس پہ ممنوع تھے ایک بوند کی فیّاضی بھی
تم نے جس ہونٹ پہ کوثر کا پیالہ رکھّا
اپنی پلکوں میں مجھے تونے چھپایا اس وقت
جب سرِ راہ میں ہر ایک فرد میرا قاتل تھا
تو نے آکر مجھے جرّاءت کی اکائی بخشی
مجھ میں ایک شخص بہادر تھا ایک بزدل تھا
کوئی واقف ہی نہیں ہے کہ رجز کے ہنگام
میرے لہجے میں تیرا گرم لہوں شامل تھا
رنگ میں سادہ مزاجی کا بھرم تجھ سے ہے
سنگ میں زحمتِ تخلیق صنم تجھ سے ہے
تجھ سے ہے،یہ جو فراواں ہے،وفا کی دولت
یہ جو اندیشہ جاں ہے اتنا کم،تجھ سے ہے
میں الگ ہو کے لکھوں تیری کہانی کیسے
میرا فن،میرا سخن،میرا قلم تجھ سے ہے
مرے ثبوت بہے جا رہے ہیں پانی میں
کسے گواہ بناؤں اس سرائے فانی میں
کہانی ختم ہوئی تب مجھے خیال آیا!
ترے سوا بھی تو کردار تھے کہانی میں
No comments:
Post a Comment