بیاں جب کلیم اپنی حالت کرے ہے
غزل کیا پڑھے ہے قیامت کرے ہے
بھلا آدمی تھا پر نادان نکلا
سنا ہے کسی سے محبت کرے ہے
کبھی شاعری اسکو کرنی نہ آتی
اسی بیوفا کی بدولت کرےہے
چھری پر چھری کھائے جائے ہے کب سے
اور اب تک جیا ہے کرامت کرے ہے
کرے ہے عداوت بھی وہ اس اد اسے
لگے ہے کہ جیسے محبت کرے ہے
یہ فتنے جو ہر ایک طرف اٹھ رہے ہیں
وہی بیٹھا بیٹھا شرارت کرے ہے
قبا ایک دن چاک اس کی بھی ہوگی
جنوں کب کسی سے رعائت کرے ہے
کلیم عاجز
جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے
وہ کون ستمگر تھے کہ یاد آنے لگے ہیں
تو کیسا مسیحا ہے کہ بیمار کرے ہے
اب روشنی ہوتی ہے کہ گھر جلتا ہے دیکھیں
شعلہ سا طوافِ در و دیوار کرے ہے
کیا دل کا بھروسہ ہے یہ سنبھلے کہ نہ سنبھلے
کیوں خود کو پریشاں مرا غم خوار کرے ہے
ہے ترکِ تعلق ہی مداوائے غمِ جاں
پر ترکِ تعلق تو بہت خوار کرے ہے
اس شہر میں ہو جنبشِ لب کا کسے یارا
یاں جنبشِ مژگاں بھی گنہگار کرے ہے
تو لاکھ فراز اپنی شکستوں کو چھپائے
یہ چپ تو ترے کرب کا اظہار کرے ہے
احمد فراز
یہ بات نرالی دل خود دار کرے ہے
تڑپے ہے مگر دردسے انکار کرے ہے
دنیا کا یہ انداز سمجھ میں نہیں آتا
دیکھے ہے حقارت سے کبھی پیار کرے ہے
تسلیم اسے کوئی بھی دل سے نہیں کرتا
وہ فیصلہ جو جبر کی تلوار کرے ہے
اس دشمنِ ایماں نے کیا شیخ پہ جادو
کافر جو کہے ہے وہی دیندار کرے ہے
اب اپنے بھی سائے کا بھروسہ نہیں یارو
نزدیک جو آئے ہے وہی وار کرے ہے
تقریر سے ممکن ہے نہ تحریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے
شرماتا ہوں فنکار سمجھتے ہوئے ،خود کو
جب جھوٹی خوشامد کوئی فنکار کرے ہے
یہ ناچتی گاتی ہوئی اس دور کی تہذیب
کیا جانئے کس کرب کا اظہار کرے ہے
مانگے ہے حفیظ اور ہی کچھ شعر کا بازار
کچھ اور طلب شعر کا معیار کرے ہے
حفیظ میرٹھی
No comments:
Post a Comment