Udasi Ke Jazeery Par Ghamon Ke Saye Gehre Hein Nigahon Ke Samandar Mein Lahoo Rang Ashk Thehry Hein
اداسی کے جزیرے پر غموں کے سائے گہرے ہیں نگاہوں کے سمندر میں لہو رنگ اشک ٹھہرے ہیں Udasi Ke Jazeery Par Ghamon Ke Saye Gehre Hein Nigahon Ke Samandar Mein Lahoo Rang Ashk Thehry Hein کہیں تنہائیوں نے وحشتوں سے دوستی کر لی کہیں دل پر گزشتہ موسموں کے اب بھی پہرے ہیں کہیں برکھا کی رت نے دل کی دنیا خوں میں نہلا دی کہیں ویران راہوں پر قدم صدیوں سے ٹھہرے ہیں سجایا ہے کہیں آنکھوں نے خود کو ماہ و انجم سے اسی امید پر کہ آنے والے دن سنہرے ہیں بھروسا کر تو لوں لیکن بتاؤ کس پہ کرنا ہے کہ ہر چہرے کے پیچھے ہی نہ جانے کتنے چہرے ہیں اقصیٰ فیض Aqsa Faiz