Kabhi to hijr zadon ka naseeb jage ga Kabhi to ankh gunahgar e khwab thehre gi



کبھی تو ہجر زدوں کا نصیب جاگے گا
کبھی تو آنکھ گنہگارِ خواب ٹھہرے گی
کسی کے ہاتھ تو لگنا ہے اشکِ خونیں کو
کسی کنارے تو شاخِ گلاب ٹھہرے گی
غبار آنکھ میں اڑتا رہے تو اچھا ہے
یہ نہر ورنہ کسی دن چناب ٹھہرے گی
بیدل حیدری
Kabhi to hijr zadon ka naseeb jage ga
Kabhi to ankh gunahgar e khwab thehre gi
Kisi ke hath to lagna hai ashk e khooneen ko
Kisi kinare to shakh e gulab thehre gi
Ghubar ankh mein udta rahe to acha hai
Ye nehr warna kisi din Chanab thehre gi

Bedil Haidery


Ye khak apni tamazat se lala rang hui Tujhe ye kis ne kaha dosta, sabab tu hai



یہ خاک اپنی تمازت سے لالہ رنگ ہُوئی
تُجھے یہ کس نے کہا دوستا، سبب تُو ہے
سیماب ظفر

Ye khak apni tamazat se lala rang hui
Tujhe ye kis ne kaha dosta, sabab tu hai

Seemab Zafar


Muhabbat Karne Wale Kam Na Hongy



محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے
تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے
میں اکثر سوچتا ہوں پھول کب تک
شریک گریۂ شبنم نہ ہوں گے
ذرا دیر آشنا چشم کرم ہے
ستم ہی عشق میں پیہم نہ ہوں گے
دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے
زمانے بھر کے غم یا اک ترا غم
یہ غم ہوگا تو کتنے غم نہ ہوں گے
کہوں بے درد کیوں اہل جہاں کو
وہ میرے حال سے محرم نہ ہوں گے
ہمارے دل میں سیل گریہ ہوگا
اگر با دیدۂ پر نم نہ ہوں گے
اگر تو اتفاقاً مل بھی جائے
تری فرقت کے صدمے کم نہ ہوں گے
حفیظؔ ان سے میں جتنا بد گماں ہوں
وہ مجھ سے اس قدر برہم نہ ہوں گے
حفیظؔ ہوشیارپوری


Tere Lehje Ki Talkhi Se Hairan Nahi Hon Main



تیرے لہجے کی تلخی سے حیران نہیں ہوں میں
بس تُو نے سمجھا یہ کہ انسان نہیں ہوں میں
تجھے حق تھا اپنے حسنُ و جمال پہ غرور کا
مجھے چھوڑ جانے سے بدگمان نہیں ہوں میں
میرے لفظوں سے مت ڈھونڈو میرے مزاج کا پتا
بار ہا کہا ہے اپنی تحریر کا عنوان نہیں ہوں میں
بس یونہی بیٹھے بیٹھے آگئے آنکھ سے آنسو یار
تیری اجڑی بکھری حالت سے پریشان نہیں ہوں میں
وہ مجھے یاد رکھے اور تعلق رابطہ بھی لازم نہیں
گمنام شاعر ہوں اسکی جِلا کا نشان نہیں ہوں میں
خاموش رہوں ہونٹ سِل لوں تیرے ستم کے آگے
سانس چلتی ہے میری دیکھ قبرستان نہیں ہوں میں
ہائے اب آئے محبتیں لیکر زمانے سے رسوائی جب ملی
ان سے کہو میں نہیں جانتا انکی جان نہیں ہوں میں

Hai Mushq Sukhan Jari Chaki Ki Mushaqat Bhi Ik Tarfa Tamasha Hai HASRAT Ki Tabeea'at Bhi



ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشا ہے حسرتؔ کی طبیعت بھی
جو چاہو سزا دے لو تم اور بھی کھل کھیلو
پر ہم سے قسم لے لو کی ہو جو شکایت بھی
دشوار ہے رندوں پر انکار کرم یکسر
اے ساقئ جاں پرور کچھ لطف و عنایت بھی
دل بسکہ ہے دیوانہ اس حسن گلابی کا
رنگیں ہے اسی رو سے شاید غم فرقت بھی
خود عشق کی گستاخی سب تجھ کو سکھا دے گی
اے حسن حیاپرور شوخی بھی شرارت بھی
برسات کے آتے ہی توبہ نہ رہی باقی
بادل جو نظر آئے بدلی میری نیت بھی
عشاق کے دل نازک اس شوخ کی خو نازک
نازک اسی نسبت سے ہے کار محبت بھی
رکھتے ہیں مرے دل پر کیوں تہمت بیتابی
یاں نالۂ مضطر کی جب مجھ میں ہو قوت بھی
اے شوق کی بیباکی وہ کیا تیری خواہش تھی
جس پر انہیں غصہ ہے انکار بھی حیرت بھی
ہر چند ہے دل شیدا حریت کامل کا
منظور دعا لیکن ہے قید محبت بھی
ہیں شادؔ و صفیؔ شاعر یا شوقؔ و وفاؔ حسرتؔ
پھر ضامنؔ و محشرؔ ہیں اقبالؔ بھی وحشتؔ بھی
حسرتؔ موہانی


Mahir Tha Woh Siyasat e Hijar o Wisal Mein Usne Kabhi Raqeeb Ko Chaha Kabhi Humain



ماہر تھا وہ سیاستِ ہجر- و- وصال میں
اس نے کبھی رقیب کو چاہا کبھی ہمیں

Mahir Tha Woh Siyasat e Hijar o Wisal Mein

Usne Kabhi Raqeeb Ko Chaha Kabhi Humain


Samandar Ki Teh Mein



نظم
سمندر کی تہہ میں
ن م راشد
سمندر کی تہ میں
سمندر کی سنگین تہ میں
ہے صندوق
صندوق میں ایک ڈبیا میں ڈبیا
میں ڈبیا
میں کتنے معانی کی صبحیں
وہ صبحیں کہ جن پر رسالت کے دربند
اپنی شعاعوں میں جکڑی ہوئی
کتنی سہمی ہوئی
(یہ صندوق کیوں کر گرا؟
نہ جانے کسی نے چرایا؟
ہمارے ہی ہاتھوں سے پھسلا؟
پھسل کر گرا؟
سمندر کی تہ میں مگر کب؟
ہمیشہ سے پہلے
ہمیشہ سے بھی سالہا سال پہلے؟
اور اب تک ہے صندوق کے گرد
لفظوں کی راتوں کا پہرا
وہ لفظوں کی راتیں
جو دیووں کی مانند
پانی کے لس دار دیووں کے مانند
یہ لفظوں کی راتیں
سمندر کی تہ میں تو بستی نہیں ہیں
مگر اپنے لا ریب پہرے کی خاطر
وہیں رینگتی ہیں
شب و روز
صندوق کے چار سو رینگتی ہیں
سمندر کی تہ میں
بہت سوچتا ہوں
کبھی یہ معانی کی پاکیزہ صبحوں کی پریاں
رہائی کی امید میں
اپنے غواص جادو گروں کی
صدائیں سنیں گی؟


Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo