Na'at Kehne Ka Hunr Aur Qareena Aaya Jab MUHAMMAD (p.b.u.h) Ki Wiladat Ka Maheena Aaya



نعت سید عالم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم
=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=
صاحبزادہ پیر سید شمس الدین شمس گیلانی مدظلہ +. خالد رومی نظامی
=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=

نعت کہنے کا ہنر اور قرینہ آیا
جب محمد کی ولادت کا مہینہ آیا
Na'at Kehne Ka Hunr Aur Qareena Aaya
Jab MUHAMMAD (p.b.u.h) Ki Wiladat Ka Maheena Aaya

میرے خوابوں کو ملی آپ کے در سے تعبیر
آنکھ کھولی تو نظر شہر مدینہ آیا
Mere Khuiwabon Ko Mili Aap Ke Dar Se Ta'abeer
Aankh Kholi Tou Nazar Shehr Madeena AAya

آگیا جوش میں اس شافع امت کا کرم
جب گنہگار کے ماتھے پہ پسینہ آیا
Aa Gaya Josh Mein Iss Shafa'a-e-Ummat Ka Karam
Jab Gunahngaar Ke Mathay Pe Paseena Aaya

حق نے اعجاز یہ بخشا ھے محمد کو فقط
جو کہا آپ نے وہ سینہ بہ سینہ آیا
Haq Ne Ijaz Ye Bakhsha Hai MUHAMMAD (p.b.u.h) Ko Faqat
Jo Kaha Aap Ne Woh Seena Ba Seena Aaya

باب تنزیل ہوا بند پئے سرور دیں
دیں مکمل ہوا, ساحل پہ سفینہ آیا
Baab-e-Tanzeel Hua Band Pe Sarwar Deen
Deen Mukamal Hua Sahil Pe Safeena Aaya

عاشقو ! جھوم اٹھو پڑھتے ہوۓ
عید میلاد ھے, خوشیوں کا مہینہ آیا
Aashiqo Jhoom Utho Parhtay Hoe
Eid-e-Meelad Hai Khushion Ka Maheena Aaya

عاصیوں کے لئے سرکار دو عالم کا وجود
دست قدرت سے ہے رحمت کا خزینہ آیا
Aasion Ke Liye Sarkaar-e-Do-Aalam Ka Wajood
Dast-e-Qudrat Se Hai Rehmat Ka Khazeena Aaya

آمد سرور کونین ہوئی دنیا میں
عرش سے خاتم دوراں کا نگینہ آیا
Aamad-e-Sarwar-e-Konain Hoi Dunya Mein
Arsh Se Khatim-e-Dauraan Ka Nageena Aaya

جب چلا عرش کو وہ آمنہ کا ماہ تمام
شمس خود جلوہء حق زینہ بہ زینہ آیا
Jab Chala Arsh Ko Woh Aamina Ka Mah-e-Tamaam
SHAMS Khud Jalwah-e-Haq Zeena Ba Zeena Aaya

(صاحبزادہ الشیخ پیر سید شمس الدین شمس گیلانی گولڑوی)

=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=*=

لب پہ جب تذکرہء شاہ مدینہ آیا
ہاتھ مقصود کا اپنے بھی خزینہ آیا
Lab Pe Jab Tazkira-e-Shah-e-Madeena Aaya
Haath Maqsood Ka Apne Bhi Khazeena Aaya

ہاتھ اللہ کی رحمت کا خزینہ آیا
لیجئے ! ان کی ولادت کا مہینہ آیا
Haath ALLAH Ki Rehmat Ka Khazeena Aaya
Lijiye Unnki Wiladat Ka Maheena Aaya

ان کی رحمت نے رکھا دھر میں بیکس کا بھرم
آس پوری ہوئی, ساحل پہ سفینہ آیا
Unnki Rehmat Ne Rakha Dahar Mein Be-Kas Ka Bharam
Aas Pori Hoi Sahil Pe Safeena Aaya

دل میں ایقان و توکل کی بہاریں پھوٹیں
جس گھڑی مجھکو نظر شہر مدینہ آیا
Dil Mein Eqaan-o-Tawakkl Ki Baharen Phoothein
Jis Gharri Mujhko Nazar Shehr-e-Madeena Aaya

قلزم مدح میں ھر حرف تھا ضو ریز ایسے
خاتم شعر میں جیسے کہ نگینہ آیا
Qulzam Madah Mein Har Harf Tha Zo Rez Aaise
Khatm-e-Shair Mein Jaise Keh Nageena Aaya

ذکر اس داعیء توحید کا جب چھڑ اٹھا
دھر کے جھوٹے خداؤں کو پسینہ آیا
Zikar Uss Da'ai-e-Toheed Ka Jab Chidh Utha
Dahar Ke Jhootay Khudaon Ko Paseena Aaya

کتنی صدیون سے تھی یہ پنجہء وحشت کی اسیر
نوع انسان کو بھی امن سے جینا آیا
Kitni Sadion Se Thi Ye Panja-e-Wehshat Ki Aaseer
Nogh-e-Insan Ko Bhi Aman Se Jeena Aaya

شاہ کے درس مساوات و اخوت کے طفیل
وحشیوں کو بھی محبت کا قرینہ آیا
Shah Ke Dars-e-Masawaat-o-Akhowat Ke Tufail
Wehshion Ko Bhi Muhabbat Ka Qareena Aaya

ان سے ایماں کا گہر سینہ بہ سینہ پہنچا
ان سے عرفان خدا سینہ بہ سینہ آیا
Unn Se Emaan Ka Guhr Seena Ba Seena Pahuncha
Unnse Irfan-e-Khuda Seena Ba Seena Aaya

کیا یہ کم ھے مرے سرور کی عنایت رومی
محفل نعت میں مجھ ایسا کمینہ آیا
Kia Ye Kam Hai Mere Sarwar Ki Inayat ROMI
Mehfil-e-Na'at Mein Mujh Aisa Kameena Aaya

دیکھ کر حشر میں رومی کو پکاری دنیا
مرحبا ! بلبل گلزار مدینہ آیا
Dekh Kar Hashar Mein ROMI Ko Pukaari Dunya
Marhaba Bulbul Gulzar-e-Madeena Aaya

محسود الاغبیاء
فقیر خالد رومی قادری چشتی نظامی کان اللہ لہ


Aik Radeef 33 Shair "Zamane Lag Jaein"



 ایک ردیف، 33 شاعر

"زمانے لگ جائیں"

احمد فراز، عرفان صدیقی، فرحت احساس، اکرم نقاش، منصور آفاق، رؤف خیر، نادم ندیم، احمد اشفاق، شبانہ یوسف، فرتاش سید، ریحانہ روحی، قیوم طاہر،خالد علیم، عباس تابش، ،محسن علوی ،ندیم ساحر ،بیدل حیدری، نوید صادق ،سعید الظفر صدیقی​، احمد علی برقی، سلیم کوثر،فاتح الدین بشیر،زین شکیل ،تنویر سیٹھی، عادل رشید، نامعلوم، رام ریاض ،صباحت عاصم واسطی، رحمان فارس، راشد امین، محسن احسان، مختار الدین مختار، حماد اظہر

******************************
 (1)
 
کیوں نہ ہم عہد رفاقت کو بھلانے لگ جائیں
شاید اس زخم کو بھرنے میں زمانے لگ جائیں

نہیں ایسا بھی کہ اک عمر کی قربت کے نشے
ایک دو روز کی رنجش سے ٹھکانے لگ جائیں

یہی ناصح جو ہمیں تجھ سے نہ ملنے کو کہیں
تجھ کو دیکھیں تو تجھے دیکھنے آنے لگ جائیں

ہم کہ ہیں لذت آزار کے مارے ہوئے لوگ
چارہ گر آئیں تو زخموں کو چھپانے لگ جائیں

ربط کے سینکڑوں حیلے ہیں محبت نہ سہی
ہم ترے ساتھ کسی اور بہانے لگ جائیں

ساقیا مسجد و مکتب تو نہیں مے خانہ
دیکھنا پھر بھی غلط لوگ نہ آنے لگ جائیں

قرب اچھا ہے مگر اتنی بھی شدت سے نہ مل
یہ نہ ہو تجھ کو مرے روگ پرانے لگ جائیں

اب فراز آؤ چلیں اپنے قبیلے کی طرف
شاعری ترک کریں بوجھ اٹھانے لگ جائیں

احمد فراز
******************************
(2) 
 
اس کی تمثال کو پانے میں زمانے لگ جائیں
ہم اگر آئینہ خانوں ہی میں جانے لگ جائیں

کیا تماشا ہے کہ جب بکنے پہ راضی ہو یہ دل
اہل بازار دکانوں کو بڑھانے لگ جائیں

پاؤں میں خاک ہی زنجیر گراں ہے کہ نہیں
پوچھنا لوگ جب اس شہر سے جانے لگ جائیں

عاشقی کے بھی کچھ آداب ہوا کرتے ہیں
زخم کھایا ہے تو کیا حشر اٹھانے لگ جائیں

اور کس طرح کریں حسن خداداد کا شکر
شعر لکھنے لگیں تصویر بنانے لگ جائیں

کچھ تو ظاہر ہو کہ ہیں جشن میں شامل ہم لوگ
کچھ نہیں ہے تو چلو خاک اڑانے لگ جائیں

عرفان صدیقی
******************************
 (3)
 
پیکر عقل ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں
تیرے پیچھے بھی جو ہم جیسے دوانے لگ جائیں

اس کا منصوبہ یہ لگتا ہے گلی میں اس کی
ہم یوں ہی خاک اڑانے میں ٹھکانے لگ جائیں

سوچ کس کام کی رہ جائے گی تیری یہ بہار
اپنے اندر ہی اگر ہم تجھے پانے لگ جائیں

سب کے جیسی نہ بنا زلف کہ ہم سادہ نگاہ
تیرے دھوکے میں کسی اور کے شانے لگ جائیں

رات بھر روتا ہوں اتنا کہ عجب کیا اس میں
ڈھیر پھولوں کے اگر مرے سرہانے لگ جائیں

دشت کرنا ہے ہمیں شہر کے اک گوشے کو
تو چلو کام پہ ہم سارے دوانے لگ جائیں

فرحت احساس اب ایسا بھی اک آہنگ کہ لوگ
سن کے اشعار ترے ناچنے گانے لگ جائیں

فرحت احساس
******************************
 (4)
 
کوئی سنتا ہی نہیں کس کو سنانے لگ جائیں
درد اگر اٹھے تو کیا شور مچانے لگ جائیں

بھید ایسا کہ گرہ جس کی طلب کرتی ہے عمر
رمز ایسا کہ سمجھنے میں زمانے لگ جائیں

آ گیا وہ تو دل و جان بچھے ہیں ہر سو
اور نہیں آئے تو کیا خاک اڑانے لگ جائیں

تیری آنکھوں کی قسم ہم کو یہ ممکن ہی نہیں
تو نہ ہو اور یہ منظر بھی سہانے لگ جائیں

وحشتیں اتنی بڑھا دے کہ گھروندے ڈھا دیں
سبز شاخوں سے پرندوں کو اڑانے لگ جائیں

ایسا دارو ہو رہ عشق سے باز آئیں قدم
ایسا چارہ ہو کہ بس ہوش ٹھکانے لگ جائیں

اکرم نقاش

******************************
(5)
 
تیرے دن جو مری دہلیز پہ آنے لگ جائیں
ڈوبتے ڈوبتے سورج کو زمانے لگ جائیں

سچ نکلتا ہی نہیں لفظ کے گھر سے ورنہ
چوک میں لوگ کتابوں کو جلانے لگ جائیں

یہ عجب ہے کہ مرے بلب بجھانے کے لئے
آسماں تیرے ستاروںکے خزانے لگ جائیں

خوبصورت بھی ، اکیلی بھی ، پڑوسن بھی ہے
لیکن اک غیرسے کیاملنے ملانے لگ جائیں

نیک پروین ! تری چشمِ غلط اٹھتے ہی
مجھ میں کیوں فلم کے سنسر شدہ گانے لگ جائیں

پل کی ریلنگ پکڑ رکھی ہے میں نے منصور
بہتے پانی مجھے دیکھیں تو بلانے لگ جائیں

منصور آفاق
******************************
(6)
 
ہم اگر رد عمل اپنا دکھانے لگ جائیں
ہر گھمنڈی کے یہاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں

خاکساروں سے کہو ہوش میں آنے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ وہ نظروں سے گرانے لگ جائیں

دیکھنا ہم کہیں پھولے نہ سمانے لگ جائیں
عندیہ جیسے ہی کچھ کچھ ترا پانے لگ جائیں

پھول چہرے یہ سر راہ ستارہ آنکھیں
شام ہوتے ہی ترا نام سجھانے لگ جائیں

اپنی اوقات میں رہنا دل خوش فہم ذرا
وہ گزارش پہ تری سر نہ کجھانے لگ جائیں

ہڈیاں باپ کی گودے سے ہوئی ہیں خالی
کم سے کم اب تو یہ بیٹے بھی کمانے لگ جائیں

ایک بل سے کہیں دو بار ڈسا ہے مومن
زخم خوردہ ہیں تو پھر زخم نہ کھانے لگ جائیں

دعوئ خوش سخنی خیر ابھی زیب نہیں
چند غزلوں ہی پہ بغلیں نہ بجانے لگ جائیں

رؤف خیر
******************************
 (7)
 
ہم جو دیوار پہ تصویر بنانے لگ جائیں
تتلیاں آ کے ترے رنگ چرانے لگ جائیں

پھر نہ ہو مخملی تکیے کی ضرورت مجھ کو
تیرے بازو جو کبھی میرے سرہانے لگ جائیں

چاند تاروں میں بھی تب نور اضافی ہو جائے
چھت پہ جب ذکر ترا یار سنانے لگ جائیں

چند سکوں پہ تم اترائے ہوئے پھرتے ہو
ہاتھ مفلس کے کہیں جیسے خزانے لگ جائیں

کیوں نہ پھر شاخ شجر پھول سبھی مرجھائیں
بھائی جب صحن میں دیوار اٹھانے لگ جائیں

اس نے دو لفظ میں جو باتیں کہیں تھی مجھ سے
اس کو میں سوچنے بیٹھوں تو زمانے لگ جائیں

پھر زمانے میں نہ ہو کوئی پریشاں نادم
تیرے جیسے بھی نکمے جو کمانے لگ جائیں

نادم ندیم
******************************
(8) 
 
ہم ترے عشق میں کچھ ایسے ٹھکانے لگ جائیں
ریگ زاروں میں پھریں خاک اڑانے لگ جائیں

ڈھونڈتا رہتا ہوں ہاتھوں کی لکیروں میں تجھے
چاہتا ہوں مرے ہاتھوں میں خزانے لگ جائیں

یہ الگ بات کہ تجدید تعلق نہ ہوا
پر اسے بھولنا چاہوں تو زمانے لگ جائیں

شہر بے شکل میں اے کاش کبھی ایسا ہو
حسب ترتیب کئی آئینہ خانے لگ جائیں

احمد اشفاق
******************************
 (9)
 
ہم اگر سچ کے انہیں قصے سنانے لگ جائیں
لوگ تو پھر ہمیں محفل سے اٹھانے لگ جائیں

یاد بھی آج نہیں ٹھیک طرح سے جو شخص
ہم اسے بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جائیں

شام ہوتے ہی کوئی خوشبو دریچہ کھولے
اور پھر بیتے ہوئے لمحے ستانے لگ جائیں

خود چراغوں کو اندھیروں کی ضرورت ہے بہت
روشنی ہو تو انہیں لوگ بجھانے لگ جائیں

اک یہی سوچ بچھڑنے نہیں دیتی تجھ سے
ہم تجھے بعد میں پھر یاد نہ آنے لگ جائیں

ایک مدت سے یہ تنہائی میں جاگے ہوئے لوگ
خواب دیکھیں تو نیا شہر بسانے لگ جائیں

شبانہ یوسف
******************************
 (10)
 
صف ماتم پہ جو ہم ناچنے گانے لگ جائیں
گردش وقت! ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں

وہ تو وہ اس کی معیت میں گزارا ہوا پل
جو بھلائیں تو بھلانے میں زمانے لگ جائیں

مرے قادر! جو تو چاہے تو یہ ممکن ہو جائے
رفتگاں شہر عدم سے یہاں آنے لگ جائیں

بزم دنیا سے چلوں ایسا نہ ہو سب مرے یار
ایک ایک کر کے مجھے چھوڑ کے جانے لگ جائیں

خواہش وصل! ترا کیا ہو جو ہم سال بہ سال
عشرۂ سوز غم ہجر منانے لگ جائیں

ہم سمجھ پائے نہ فرتاش مزاج خوباں
دل چرائیں تو کبھی آنکھیں چرانے لگ جائیں

فرتاش سید
******************************
 (11)
 
دل کو رہ رہ کے یہ اندیشے ڈرانے لگ جائیں
واپسی میں اسے ممکن ہے زمانے لگ جائیں

سو نہیں پائیں تو سونے کی دعائیں مانگیں
نیند آنے لگے تو خود کو جگانے لگ جائیں

اس کو ڈھونڈیں اسے اک بات بتانے کے لیے
جب وہ مل جائے تو وہ بات چھپانے لگ جائیں

ہر دسمبر اسی وحشت میں گزارا کہ کہیں
پھر سے آنکھوں میں ترے خواب نہ آنے لگ جائیں

اتنی تاخیر سے مت مل کہ ہمیں صبر آ جائے
اور پھر ہم بھی نظر تجھ سے چرانے لگ جائیں

جیت جائیں گی ہوائیں یہ خبر ہوتے ہوئے
تیز آندھی میں چراغوں کو جلانے لگ جائیں

تم مرے شہر میں آئے تو مجھے ایسا لگا
جوں تہی دامنوں کے ہاتھ خزانے لگ جائیں

ریحانہ روحی
******************************
(12)
 
خواب ایسے کہ گئی رات ڈرانے لگ جائیں
درد جاگے تو سلانے میں زمانے لگ جائیں

ہم وہ نادان ہواؤں سے وفا کی خاطر
اپنے آنگن کے چراغوں کو بجھانے لگ جائیں

تھوڑے گیہوں ابھی مٹی پہ رکھے رہنے دو
وہ پرندے کہ کبھی لوٹ کے آنے لگ جائیں

آس مہکے جو کسی کھوئے جزیرے کی کبھی
تیری بانہیں مجھے ساحل پہ بلانے لگ جائیں

کوئی دشمن نہ ہو ان کو تو یہ ایذا پرور
اپنے خیموں پہ ہی تیروں کو چلانے لگ جائیں

قیوم طاہر
******************************
(13)
 
ہم ہی، ممکن ہے، ترے ناز اٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں

تیرے آوارہ چلو ہم ہی رہیں گے لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں

روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں

ریزہ ریزہ جنھیں سینے میں بہم رکھتا ہوں
وہی چپکے سے مری خاک اڑانے لگ جائیں

میری جاں! دیکھ یہی وصل کے موسم نہ کہیں
قریۂ گل پہ تگ و تاز اٹھانے لگ جائیں

روکتے روکتے بھی آنکھ چھلک اٹھتی ہے
کیا کریں، دل کو اگر روگ پرانے لگ جائیں

تم نے باندھا ہے جنھیں تار نظر سے خالد
وہی دریا نہ کہیں آگ لگانے لگ جائیں

خالد علیم
******************************
 (14)
 
تیرے گمنام اگر نام کمانے لگ جائیں
شرف و شیوہ و تسلیم ٹھکانے لگ جائیں​

جس طرح نور سے پیدا ہے جہانِ اشیاء
اک نظر ڈال کے ہم بھی نظر آنے لگ جائیں​

یہ بھی ممکن ہے کوئی روکنے والا ہی نہ ہو
یہ بھی ممکن ہے یہاں مجھ کو زمانے لگ جائیں​

دیکھ اے حسنِ فراواں یہ بہت ممکن ہے
میرا دل تک نہ لگے تیرے خزانے لگ جائیں​

جن کے ہونے سے ہے مشروط ہمارا ہونا
اپنے ہونے کا نہ احساس دلانے لگ جائیں​

تو محبّت کی غرض لمحہء موجود سے رکھ
ترے ذمّے نہ مرے درد پرانے لگ جائیں​

یہ محبّت نہ کہیں ردِعمل بن جائے
ہم ترے بعد کوئی ظلم نہ ڈھانے لگ جائیں​

کارِ دُنیا بھی عجب ہے کہ مرے گھر والے
دن نکلتے ہی مری خیر منانے لگ جائیں​

پاس ہی ڈوب رہی ہے کوئی کشتی تابش
خود نہیں بچتے اگر اس کو بچانے لگ جائیں​

عباس تابش
******************************
 (15)
 
ہم اگر دل کا تمھیں حال سنانے لگ جائیں
حالِ دل سُننے میں تم کو بھی زمانے لگ جائیں

تیرے کہنے سے میں خاموش ہوں اے دل لیکن
خود ہی پلکوں پہ کہیں اشک نہ آنے لگ جائیں

کبھی گزرے ہوئے موسم کبھی بیتے ہوئے دن
یاد آجائیں تو پھر ہم کو رُلانے لگ جائیں

واہ رے کشمکشِ وقتِ محبت کے نثار
کبھی رنجش ہو تو پھر ساتھ نِبھانے لگ جائیں

ہم نے خود کو بھی یہی سوچ کے روکے رکھا
جانے کیا ہو جو اگر تیر نشانے لگ جائیں

جانے کیا رسم چلی ہے تری دنیا میں خُدا
سر اٹھاتا ہوں تو سب لوگ گِرانے لگ جائیں

دردِ دل اُس پہ یہ انداز، کہیں کیا خود کو
کوئی مل جائے تو ہم شعر سُنانے لگ جائیں

دل تو دشمن کے کسی وار سے زخمی نہ ہوا
پر اگر دوست جو اب تیر اُٹھانے لگ جائیں

ان کی قربت کی مہک مجھ پہ عجب رنگ بنے
مِرے دل پر مِرے احساس پہ چھانے لگ جائیں

یہی خواہش ہے زمانے کے بھلے کی خاطر
چاہے دل سے بھی کوئی مانے نہ مانے لگ جائیں

میری مٹی تری اُلفت میں تمنا دل کی
دل کی دھڑکن پہ فقط تیرے ترانے لگ جائیں

دوستی تیرا بھلا ہو، کہ ترا نام تو ہے
ورنہ سب لوگ مِرے دل کو جلانے لگ جائیں

رب کی الفت کے ہوں صدقے اسی عظمت کے نثار
اسکی رحمت ہو تو، ہم بھی نظر آنے لگ جائیں

انکے انداز پہ یہ سوچ کے خاموش رہے
وہ کہیں ہم سے محبت نہ چھپانے لگ جائیں

داستاں سُن کے ہر اک شخص ہی رنجیدہ ہو
داستانوں میں اگر میرے فسانے لگ جائیں

حُسن نے خود کو سنوارا ہے، خدا خیر کرے
عشق والے بھی ذرا خیر منانے لگ جائیں

درد دل تھام کے کہتا ہے یہ محسن ہم سے
دولت درد کو ہم دل سے کمانے لگ جائیں

محسن علوی
******************************
 (16)
 
ہم درختوں کو اگر خواب سنانے لگ جائیں
ان پرندوں کے تو پھر ہوش ٹھکانے لگ جائیں

آخری پل ہے ذرا بیٹھ کہ باتیں کر لیں
عین ممکن ہے پلٹنے میں زمانے لگ جائیں

ہم نوافل میں ترے نام کی تسبیح کریں
یوں بھی مسجد میں ترا ہجر منانے لگ جائیں

کوزہ گر تم سے مرے خواب نہیں ٹھیک بنے
بس یہی سوچ کے پھر چاک گھمانے لگ جائیں

حضرتِ قیس ترے خواب کی بیعت کر کے
ہم کسی دشت میں پھر نام کمانے لگ جائیں

یہ بھی ممکن ہے کہ چپ چاپ ترا ہجر سہیں
یہ بھی ممکن ہے کوئی حشر اٹھانے لگ جائیں

ہم ہیں تنہائی کے مارے ہوئے کمرے کے مکیں
جو بھی مل جائے اسے دوست بنانے لگ جائیں

ہم نئے دور کے عاشق بھی عجب ہیں کہ ندیم
جو بھی مل جائے اسے شعر سنانے لگ جائیں

ندیم ساحر
******************************
 (17)
 
ہم کبھی شہرِمحبت جو بسانے لگ جائیں
کبھی طوفان کبھی زلزلے آنے لگ جائیں

کبھی اک لمحہ فرصت کا جو میّسر آجائے
میری سوچیں مجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں

رات کا رنگ کبھی اور بھی گہرا ہو جائے
کبھی آثار سحر کے نظر آنے لگ جـــــائیں

انتظار اُس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنـــا
کیا خبر برف پگھلنے میں زمانے لگ جائیں

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں تجھے دن میں ہم لوگ
شب کو کاغذ پہ تیرا چہرا بنانے لگ جائیں

ہم بھی کیا اہلِ قلم ہیں کہ بیاضِ دل پر
خود ہی اک نام لکھیں خود ہی مٹانے لگ جایئں

عجب انسان ہیں ہم بھی کہ خطوں کو اُن کے
خود ہی محفوظ کریں خود ہی جلانے لگ جایئں

وہ ہمیں بھولنا چاہیں تو بُھلا دیں پل میں
ہم انہیں بھولنا چاہیں تو زمانے لگ جایئں

اُن مکانوں پہ خدا اپنا کرم فرمائے
جن میں خود اُن کے مکیں نقب لگانے لگ جایئں

نہیں جلتا تو اُترتا نہیں قرضِ ظلمـت
جلنا چاہوں تو مجھے لوگ بجھانے لگ جائیں

گھر میں بیٹھوں تو اندھیرے مجھے نوچیں بیــــدل
باہر آؤں تو اُجالے مجھے کھانے لگ جائیں

بیدل حیدری
******************************
(18)
 
پھر وہی ضد کہ ہر اک بات بتانے لگ جائیں
اب تو آنسو بھی نہیں ہیں کہ بہانے لگ جائیں

تیری تکریم بھی لازم ہے شبِ اوجِ وصال
پر یہ ڈر ہے کہ یہ لمحے نہ ٹھکانے لگ جائیں

کچھ نمو کے بھی تقاضے ہیں سرِ کشتِ خیال
ورنہ ہم لوگ تو بس خاک اُڑانے لگ جائیں

ایک لمحے کی ملاقات کا خاموش سفر
ان کہے لفظ نہ اب شور مچانے لگ جائیں

وہ رفاقت، وہ فسانہ، وہ تماشا، وہ خلوص
کوئی عنوان تلاشیں تو زمانے لگ جائیں

ہم سمجھتے ہیں ستم زاد قبیلوں کو نوید
پیڑ سرسبز، گھنا ہو تو گرانے لگ جائیں

چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں

ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں

ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں

ہم ہی، ممکن ہے ترے ناز اُٹھانے لگ جائیں
پہلے یہ زخم پرانے تو ٹھکانے لگ جائیں

تیرے آوارہ، چلو ہم ہی رہیں گے، لیکن
یہ نہ ہو، تجھ کو بھلانے میں زمانے لگ جائیں

روک لو اپنے سلگتے ہوئے جذبوں کے شرار
اس سے پہلے کہ کوئی حشر اُٹھانے لگ جائیں

ریزہ ریزہ، جنہیں سینے میں بہم رکھتا ہوں
وہی چپکے سے مری خاک اُڑانے لگ جائیں

میری جاں ! دیکھ یہی وصل کے موسم نہ کہیں
قریۂ گُل پہ تگ و تاز اُٹھانے لگ جائیں

روکتے روکتے بھی، آنکھ چھلک اُٹھتی ہے
کیا کریں، دل کو اگر روگ پرانے لگ جائیں

نوید صادق
******************************
 (19)
 
دیکھتے ہیں جو اگر ہم وہ سنانے لگ جائیں
اچھے اچھوں کے میاں ہوش ٹھکانے لگ جائیں

کتنے خوش فہم ہیں کچھ لوگ تری محفل میں
ہو اجازت تو ہم آئینہ دکھانے لگ جائیں​

ایک ہی پَل میں کبھی عمر گزر جاتی ہے
اور کسی پَل کو بِتانے میں زمانے لگ جائیں

پھر نہ کر دیں نظر انداز ہم اپنے دل کو
پھر کسی اور کی باتوں میں نہ آنے لگ جائیں

پھر یہ رستے نہ سرابوں کے حوالے کر دیں
پھر یہ آنکھیں نہ کہیں خواب دکھانے لگ جائیں

جاں بلب ہونے میں اک عمر لگی ہے دیکھو
کتنے دن جان سے جانے میں نہ جانے لگ جائیں

سعید الظفر صدیقی​
******************************
(20)
 
بزم میں نغمۂ جاں بخش سنانے لگ جائیں
جوہرِ حسنِ بیاں اپنا دکھانے لگ جائیں

ہے ارادہ یہ بیاں آج کروں سوزِ دروں
سن کے ایسا نہ ہو وہ اشک بہانے لگ جائیں

اِس سے پہلے کہ خزاں کے ہوں نمایاں آثار
باغِ ہستی میں نیا پھول کھلانے لگ جائیں

عزتِ نفس کا سودا نہ کروں گا ہرگز
کہیں ایسا نہ ہو وہ مجھ کو ستانے لگ جائیں

جان میں جان ہے جب تک رہیں سرگرمِ عمل
وہ گراتا ہے اگر آپ بنانے لگ جائیں

آپ کے ساتھ اگر کوئی کرے حُسنِ سلوک
آپ بھی حُسنِ عمل اُس سے نبھانے لگ جائیں

آج ہے جشن کا ماحول نہ کیوں اے برقی
ہم پرندوں کی طرح باغ میں گانے لگ جائیں
احمد علی برقی
******************************
 (21)
 
زخمِ احساس اگر ہم بھی دکھانے لگ جائیں
شہر کے شہر اسی غم میں ٹھکانے لگ جائیں

جس کو ہر سانس میں محسوس کیا ہے ہم نے
ہم اُسے ڈھونڈنے نکلیں تو زمانے لگ جائیں

اَبر سے اب کے ہواؤں نے یہ سازش کی ہے
خشک پیڑوں پہ ثمر پھر سے نہ آنے لگ جائیں

کاش اب کے ترے آنے کی خبر سچی ہو
ہم مُنڈیروں سے پَرندوں کو اُڑانے لگ جائیں

شعر کا نشّہ جو اُترے کبھی اک پَل کے لئے
زندگی ہم بھی ترا قرض چُکانے لگ جائیں

سوچتے یہ ہیں ترا نام لکھیں آنکھوں پر
چاہتے یہ ہیں تجھے سب سے چھپانے لگ جائیں

اِس طرح دن کے اجالے سے ڈرے لوگ سلیم
شام ہوتے ہی چراغوں کو بجھانے لگ جائیں

سلیم کوثر
******************************
 (22)
 
داستانِ شبِ غم گر وہ سنانے لگ جائیں
سننے والوں کے تو بس ہوش ٹھکانے لگ جائیں

ہم ہواؤں میں نہ کیوں اڑنے اڑانے لگ جائیں
آ کے سینے سے جو کچھ یار پرانے لگ جائیں

ہاتھ عصیاں کے بھی کچھ اور بہانے لگ جائیں
تیری ہیبت کو جو بخشش سے ملانے لگ جائیں

نالۂ دہر مباح، ان کو ہے تعذیب عزیز
کیا نکیرین بھی آواز ملانے لگ جائیں

قیسِ رم خوردہ کی لے کچھ تو خبر لیلیٰ جان
اس کو آہوئے ختن ہی نہ رجھانے لگ جائیں

عشقِ لیلیٰ میں ہُوا ہے سگِ لیلیٰ بھی عزیز
ایرے غیروں کے بھی ہم ناز اٹھانے لگ جائیں

ایک مجمع ہے ہُوا طالبِ مرہم نظری
چارہ گر بھی نہ فقط آس دلانے لگ جائیں

فاتح الدین بشیر
******************************
 (23)
 
عشق میں خاک جو دَر دَر کی اڑانے لگ جائیں
وہ بھلا کیسے تجھے سب سے چھپانے لگ جائیں

ہم کہیں جائیں تری سمت چلے جاتے ہیں
جیسے رستے ہی تری سمت کو جانے لگ جائیں

ایسے بے مہر ہیں پہلے تجھے ڈھونڈیں ہر سُو
اور پاتے ہی تجھے پھر سے گنوانے لگ جائیں

حسنِ یزداں کا کہا کیا کہ یہی چاہتا ہے
ایک دیوار سے سارے ہی دِوانے لگ جائیں

ہم اسیران محبت کا یہی کام ہے بس
زخم میں رنگ بھریں، درد کمانے لگ جائیں

مثلِ درویش تجھے ماننے والے کچھ لوگ
آستانے سے ترے ہم کو اُٹھانے لگ جائیں

رات دن بس اسی صورت ہی کٹے جاتے ہیں
اک تجھے یاد کریں، تجھ کو بھلانے لگ جائیں

ایسی تاریک شبوں بیچ پڑے ہیں جن میں
نیند بھی جبر کرے، خواب ڈرانے لگ جائیں

یوں ترے ہجر میں ہم رکھیں بہت اپنا خیال
اشک ہی پینے لگیں، درد ہی کھانے لگ جائیں

اے مرے ہوش رُبا شہر کو مت چھوڑ کے جا
یہ نہ ہو لوگ ترے شہر سے جانے لگ جائیں

کاش کہ حشر میں رو رو کے ترے سارے ستم
میرے کاندھوں کے فرشتے بھی سنانے لگ جائیں

زین اب دل میں فقط ایک یہی حسرت ہے
وہ مرے نام کو لکھ لکھ کے مٹانے لگ جائیں

زین شکیل
******************************
 (24)
 
ہم اگر قصہ فرہاد سنانے لگ جائیں
رات کٹنے بھی ممکن ہے زمانے لگ جائیں

ہم تم رکھتے ہیں محبت کے تسلسل پہ یقیں
ہم نہی وہ جو نۓ دوست بنانے لگ جائیں

شورش وقت میں گمنام ہی رہنا اچھا
کیا کریں لوگ جہاں نام کمانے لگ جائیں

کس طرح ٹھہرے کوئ شب بسری کی خاطر
پیڑ جب خود ہی پرندوں کو اڑانے لگ جائیں

میرے بچ جانے کی امید ہے اب تک قاءم
میرے ملبے کو اگر آپ ہٹانے لگ جائیں

کسی چشمے کو ابھی تک نہیں معلوم کہ ہم
اور بڑھتی ہے اگر پیاس بجھانے لگ جائیں

میرے اشعار ادا ہوں تیرے ہونٹوں سے اگر
ٹوٹے پھوٹے میرے الفاظ ٹھکانے لگ جائیں

دن نکلنے کی دعا مانگنے والے تنویر
تنگ آکر نہ کہیں شہر جلانے لگ جائیں

تنویر سیٹھی
******************************
(25)

ہم جو اک پل کو کسی غیر کے شانے لگ جائیں
تو میری جان تیرے ہوش ٹھکانے لگ جائیں

ہم ترے چاہنے والے ہیں، تجھے یاد رہے
جانے کب کوچے میں ہم خاک اُڑانے لگ جائیں

اس سے کہنا کہ نگاہیں بھی نہیں اٹھ سکتیں
ہم جو اپنے کبھی احسان گنانے لگ جائیں

ہم طرفدارِ محبت ہیں مگر اتنے نہیں
ایسے ویسے بھی ہمیں آنکھ دکھانے لگ جائیں

شمس بھی ڈوب گیا شام ڈھلی رات ھوئی
کہہ دو یادوں سے کہ اب ناچنے گانے لگ جائیں

دل تو ٹوٹا ہے ہمارا بھی محبت میں مگر
آپ کے جیسے کہ ہم شور مچانے لگ جائیں

عادل رشید
******************************
 (26)
 
قصہِ ہجر اگر تجھ کو سُنانے لگ جائیں
اے میری جاں عمر نہیں اس میں زمانے لگ جائیں

میں نے اِس خوف سے غم تجھ سے چُھپائے ہیں
میرے آنسو تیری آنکھوں سے نہ آنے لگ جائیں

کاش ایسا ہو کبھی میں کچھ نہ کہوں تجھ سے
میری آنکھیں میرے احوال بتانے لگ جائیں

رت جگے کِھلنے لگے پھر سے میری نیندوں میں
روگ مجھ کو نہ کہیں پھر سے پُرانے لگ جائیں

ایسے عالم میں تُجھے بھولنا مُمکن ہے کہ جب
سارے موسم ہی تیری یاد دلانے لگ جائیں

اے میرے ناداں دلِ عشق تجھ سے شکایت کیسی
جب میرے خواب ہی خود مجھ کو جلانے لگ جائیں

ہاں مجھے ناز ہے آشُفتہ سری پے اپنی
راہ دیکھوں گا بھلے تجھ کو زمانے لگ جائیں

نامعلوم
******************************
 (27)
 
چاند بے کل کرے جب تارے ستانے لگ جائیں
اہلِ غربت تری روداد سنانے لگ جائیں

ہم ترے غم میں اگر اشک بہانے لگ جائیں
دربدر آگ پھرے شہر ٹھکانے لگ جائیں

ان کو اتنے تو پروبال مہیا کر دے
یہ پکھیرو تری آواز پہ آنے لگ جائیں

رام ریاض
******************************
 (28)
 
چلئے ہم ہی ترا بوجھ اٹھانے لگ جائیں
اس سے پہلے کہ ترے جسم کو شانے لگ جائیں

یوں نہ ہو کوئی مکینوں کی نہ سوچے عاصم
آگ ہی صرف رضا کار بجھانے لگ جائیں

صباحت عاصم واسطی
******************************
 (29)
 
آپ کی آنکھیں اگر شعر سُنانے لگ جائیں
ھم جو غزلیں لیے پھرتے ھیں ، ٹھکانے لگ جائیں

ھم تہی ظرف نہیں ھیں کہ محبت کر کے
کسی احسان کے مانند جتانے لگ جائیں

رحمان فارس
******************************
 (30)
 
جیب میں رکھ لوں ترے شہر میں دونوں آنکھیں
گاؤں جانے میں مجھے پھر نہ زمانے لگ جائیں

تُو بگڑتا ہے تو ہم تجھ کو منا لیتے ہیں
ہم جو بگڑیں تو ترے ہوش ٹھکانے لگ جائیں

راشد امین
******************************
 (31)
 
اب کے صیاد جو دوچار ٹھکانے لگ جائیں
ہم پرندوں کی طرح باغ میں گانے لگ جائیں

محسن احسان
******************************
(32)

اب یہ حسرت ہے کہ ہر بات بھلا کر مختار
خواب آنکھوں میں مدینے کے سجانے لگ جائیں

مختار الدین مختار

******************************
 (33)
 
ایک ناکام محبت کا حوالہ ہے بہت
کیا ضروری ہے کہانی ہی سنانے لگ جائیں

حماد اظہر

Milti Hai Zindagi Mein Muhabbat Kabhi Kabhi,Hoti Hai Dilbaron Ki Inayat Kabhi Kabhi



*************************
ساحر لدھیانوی
ملتی ہے زندگی میں محبت کبھی کبھی
ہوتی ہے دلبروں کی عنایت کبھی کبھی

شرما کہ منہ نہ پھیر نظر کے سوال پر
لاتی ہے ایسے موڑ پہ قسمت کبھی کبھی

کھلتے نہیں ہیں روز دریچے بہار کے
آتی ہے جان من یہ قیامت کبھی کبھی

تنہا نہ کٹ سکیں گے جوانی کے راستے
پیش آئے گی کسی کی ضرورت کبھی کبھی

پھر کھو نہ جائیں ہم کہیں دنیا کی بھیڑ میں
ملتی ہے پاس آنے کی مہلت کبھی کبھی
 
*************************
قابل اجمیری
غم چھیڑتا ہے ساز رگ جاں کبھی کبھی
ہوتی ہے کائنات غزل خواں کبھی کبھی

ہم نے دیئے ہیں عشق کو تیور نئے نئے
ان سے بھی ہو گئے ہیں گریزاں کبھی کبھی

اے دولت سکوں کے طلبگار دیکھنا
شبنم سے جل گیا ہے گلستاں کبھی کبھی

ہم بے کسوں کی بزم میں آئے گا اور کون
آ بیٹھتی ہے گردش دوراں کبھی کبھی

کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی
یوں بھی ہوا ہے جشن چراغاں کبھی کبھی
 
***************************
رتن پنڈوروی
موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی
پایا ہے ڈوب کر بھی کنارا کبھی کبھی

کرتی ہے تیغ یار اشارہ کبھی کبھی
ہوتا ہے امتحان ہمارا کبھی کبھی

چمکا ہے عشق کا بھی ستارہ کبھی کبھی
مانگا ہے حسن نے بھی سہارا کبھی کبھی

طالب کی شکل میں ملی مطلوب کی جھلک
دیکھا ہے ہم نے یہ بھی نظارہ کبھی کبھی

شوخی ہے حسن کی یہ ہے جذب وفا کا سحر
اس نے ہمیں سلام گزارا کبھی کبھی

فریاد غم روا نہیں دستور عشق میں
پھر بھی لیا ہے اس کا سہارا کبھی کبھی

مشکل میں دے سکا نہ سہارا کوئی رتن
ہاں درد نے دیا ہے سہارا کبھی کبھی
 
*************************
اثر لکھنوی
چپکے سے نام لے کے تمہارا کبھی کبھی
دل ڈوبنے لگا تو ابھرا کبھی کبھی

ہر چند اشک یاس جب امڈے تو پی گئے
چمکا فلک پہ ایک ستارا کبھی کبھی

میں نے تو ہونٹ سی لیے اس دل کو کیا کروں
بے اختیار تم کو پکارا کبھی کبھی

زہر الم کی اور بڑھانے کو تلخیاں
بے مہریوں کے ساتھ مدارا کبھی کبھی

رسوائیوں کے سے دور نہیں بے قراریاں
دل کو ہو کاش صبر کا یارا کبھی کبھی

قطرہ کے ایک موج یہ کہتی نکل گئی
ساحل سے مصلحت ہے کنارا کبھی کبھی

اے شاہد جمال کوئی شکل ہے کی ہو
تیری نظر سے تیرا نظارہ کبھی کبھی

ہنگام گریہ آہ سے ناداں اثر حذر
اڑتا ہے اشک جیسے شرارہ کبھی کبھی

Aik Radeef "Bhi Buhat Hai" 4 Shair



ایک ردیف بھی بہت ہے
4 شاعر


میرے لیے ساحل کا نظارا بھی بہت ہے
گرداب میں تنکے کا سہارا بھی بہت ہے

دم ساز ملا کوئی نہ صحرائے جنوں میں
ڈھونڈا بھی بہت ہم نے پکارا بھی بہت ہے

اپنی روش لطف پہ کچھ وہ بھی مصر ہیں
کچھ تلخئ غم ہم کو گوارا بھی بہت ہے

انجام وفا دیکھ لیں کچھ اور بھی جی کے
سنتے ہیں خیال ان کو ہمارا بھی بہت ہے

کچھ راس بھی آتی نہیں افسر کو مسرت
کچھ یہ کہ وہ حالات کا مارا بھی بہت ہے

افسر ماہ پوری
************************

کچھ تو مجھے محبوب ترا غم بھی بہت ہے
کچھ تیری توجہ کی نظر کم بھی بہت ہے

اشکوں سے بھی کھلتا ہے وہ دل جو ہے گرفتہ
کلیوں کے لیے قطرۂ شبنم بھی بہت ہے

ہم خود ہی نہیں چاہتے صیاد سے بچنا
سازش نگہ‌ و دل کی منظم بھی بہت ہے

ہے رشتۂ دزدیدہ نگاہی بھی عجب شے
قائم یہ ہوا پر بھی ہے محکم بھی بہت ہے

ڈھائے دل نازک پہ بہت اس نے ستم بھی
پھر لطف یہ ہے مجھ پہ وہ برہم بھی بہت ہے

یہ طرفہ تماشہ ہے کیا قتل بھی مجھ کو
اور پھر مرے مرنے کا انہیں غم بھی بہت ہے

پڑتے ہیں ستم گر کے ذرا وار بھی اوچھے
اور فضلی بسمل میں ذرا دم بھی بہت ہے

فضل احمد کریم فضلی
**************************

بے چہرگیٔ عمر خجالت بھی بہت ہے
اس دشت میں گرداب کی صورت بھی بہت ہے

آنکھیں جو لیے پھرتا ہوں اے خواب مسلسل!
میرے لیے یہ کار اذیت بھی بہت ہے

تم زاد سفر اتنا اٹھاؤ گے کہاں تک
اسباب میں اک رنج مسافت بھی بہت ہے

دو سانس بھی ہو جائیں بہم حبس بدن میں
اے عمر رواں! اتنی کرامت بھی بہت ہے

کچھ اجرت ہستی بھی نہیں اپنے مطابق
کچھ کار تنفس میں مشقت بھی بہت ہے

اب موت مجھے مار کے کیا دے گی غضنفر
آنکھوں کو تو یہ عالم حیرت بھی بہت ہے

غضنفر ہاشمی
***************************

شکوے بھی ہزاروں ہیں شکایت بھی بہت ہے
اس دل کو مگر اس سے محبت بھی بہت ہے

آ جاتا ہے ملنے وہ تصور میں سر شام
اک شخص کی اتنی سی عنایت بھی بہت ہے

یہ بھی ہے تمنا کے اسے دل سے بھلا دیں
اس دل کو مگر اس کی ضرورت بھی بہت ہے

نامعلوم

Khud ko hum yoo'n bigaard baithe hain Ab sudharne ki koi raah nahi



Khud ko hum yoo'n bigaard baithe hain
Ab sudharne ki koi raah nahi

Aik baat aur pate ki main bataoo'n tujh ko aakhrat banti chali jaaye gi,dunya na bana



Aik baat aur pate ki main bataoo'n tujh ko
aakhrat banti chali jaaye gi,dunya na bana
Wasi Shah
 

Suno Ishq ki chaakri Milti nhi khairaat mein Dill mein faqiri Aur fitrat sufiaana chahiye




Suno
Ishq ki chaakri Milti nhi khairaat mein
Dill mein faqiri Aur fitrat sufiaana chahiye

Jane kis ki thi khata yad nahin Hum hue kaise juda yad nahin



Jane kis ki thi khata yad nahin
Hum hue kaise juda yad nahin
Ik faqat yad hai jana un ka
Aur kuchh is k siwa yad nahin
Sufi Tabassum

Ek Ye Khauf K Koi Zakham Na Dekh Le Dil K Aur Ek Ye Hasrat K Kaaashh Koi Dekhne Wala Hota



Ek Ye Khauf K Koi Zakham Na Dekh Le Dil K
Aur Ek Ye Hasrat K Kaaashh Koi Dekhne Wala Hota...!!!

Maujood thi udasi abhi pichli raat ki Bahlaya tha dil zara sa phir raat ho gaee



Maujood thi udasi abhi pichli raat ki
Bahlaya tha dil zara sa phir raat ho gaee

Tu to kehta tha Ke tu ret ki tarah Bikhar gaya Uska kya hua jo Samander main Utattar gaya



Tu to kehta tha
Ke tu ret ki tarah
Bikhar gaya
Uska kya hua jo
Samander main
Utattar gaya ?

Chaha to tha ke chalu'n Ta-umr Tumhare Saath Tum hi Raah Mud gaye Mere Raqeeb ke saath



Chaha to tha ke chalu'n
Ta-umr Tumhare Saath

Tum hi Raah Mud gaye
Mere Raqeeb ke saath...!!!

Kuch din say tera rang kahee'n jamm nahee'n raha lagta hai teri baato'n main ab damm nahee'n raha



Kuch din say tera rang kahee'n jamm nahee'n raha
lagta hai teri baato'n main ab damm nahee'n raha

sho'lo'n ka roop lay liya jab say hawaa'on nay
tab say mera mizaaj bhi shabnam nahee'n raha

zakhmo'n pay ab namak he chhirahk day ay chara'gar
gar teray ikhtiyaar main marham nahee'n raha

kal shab chamak damak main sitaro'n kay darmiyaa'n
yeh zarra e haqeer bhi kuch kam nahee'n raha

kuch dair aisay ro kay tabeeyat sambhal gayee
ab jaisay zindagi main koi gham nahee'n raha

main kya karoo'n NAEEM keh ab mera jazb e dil
manzil ki justajoo main kahee'n ka nahee'n raha

Phir Chand Khila Phir Raat Thami Phir Dil Ne Kaha Hai Teri Kami Phir Yaad K Jhonkey Mehak Gaye



Phir Chand Khila
Phir Raat Thami
Phir Dil Ne Kaha Hai Teri Kami
Phir Yaad K Jhonkey Mehak Gaye
Phir Pagal Armaan Behak Gaye
Phir Jannat Si Lagti Hai Zameen
Phir Guzre Lamhon Ki Batien
Phir Jaagi Jaagi Si Hain Raatein
Phir Thehar Gayi Hai Palkon Main Nami
Phir Dil Ne Kaha Hai Teri Kami

Hoi Phir Imtehaan-e-Ishq Ki Tadbeer Bismillah,Har Ik Janib Macha Kuhraam-e-Daar-o-Geer Bismillah



 6 چہ شاعر آپ باذوق احباب کی نذر

*******************************
فیض احمد فیض

ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ
درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے
دریدہ دامنوں والے،پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
گنو سب داغ دل کے، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرستش ہو رہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالہ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہئے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہئے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہئے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ
سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
لاہور جیل

*************************
احمد فراز

قتلِ عشاق میں اب عذر ہے کیا بسم اللہ
سب گنہگار ہیں راضی بہ رضا بسم اللہ

میکدے کے ادب آداب سبھی جانتے ہیں
جام ٹکرائے تو واعظ نے کہا بسم اللہ

ہم نے کی رنجشِ بے جا کی شکایت تم سے
اب تمہیں بھی ہے اگر کوئی گِلا بسم اللہ

بتِ کافر ہو تو ایسا کہ سرِ راہگزار
پاؤں رکھے تو کہے خلقِ خدا بسم اللہ

ہم کو گلچیں سے گِلا ہے گل و گلشن سے نہیں
تجھ کو آنا ہے تو اے بادِ صبا بسم اللہ

گرتے گرتے جو سنبھالا لیا قاتل نے فراز
دل سے آئی کسی بسمل کی صدا، بسم اللہ

*******************
ظفر عجمی

آ کے جب خواب تمہارے نے کہا بسم اللہ
دل مسافر تھکے ہارے نے کہا بسم اللہ

ہجر کی رات میں جب درد کے بستر پہ گرا
شب کے بہتے ہوئے دھارے نے کہا بسم اللہ

شام کا وقت تھا اور ناؤ تھی ساحل کے قریب
پاؤں چھوتے ہی کنارے نے کہا بسم اللہ

اجنبی شہر میں تھا پہلا پڑاؤ میرا
بام سے جھک کے ستارے نے کہا بسم اللہ

موت سی سردی تھی جب راکھ میں ڈالا تھا ہاتھ
ایک ننھے سے شرارے نے کہا بسم اللہ

لڑکھڑائے جو ذرا پاؤں تو اک شور ہوا
قافلے سارے کے سارے نے کہا بسم اللہ

نا خدا چھوڑ گئے بیچ بھنور میں تو ظفر
ایک تنکے کے سہارے نے کہا بسم اللہ

********************
نظیر اکبرآبادی

جو کہتے ہو چلیں ہم بھی ترے ہم راہ بسم اللہ
پھر اس میں دیر کیا اور پوچھنا کیا واہ بسم اللہ

قدم اس ناز سے رکھتا ہوا آتا ہے محفل میں
کہ اہل بزم سب کہتے ہیں بسم اللہ بسم اللہ

لگائی اس نے جو جو تیغ ابرو کی مرے دل پر
لب ہر زخم سے نکلی بجائے آہ بسم اللہ

شب مہ میں جو کل ٹک ڈگمگایا وہ تو سب انجم
وہیں بولے خدا حافظ پکارا ماہ بسم اللہ

وہ جس دم نسخۂ ناز و ادا آغاز کرتا ہے
تو ہم کہتے ہیں اک اک آن پر واللہ بسم اللہ

جو اس کی چاہ کا جی میں ارادہ ہے تو بس اے دل
مبارک ہے تجھے جا شوق سے تو چاہ بسم اللہ

نظیر اس دل ربا محبوب چنچل سے لگا کر دل
ہمیں کہنا پڑا ہے دم بہ دم اللہ بسم اللہ

*****************************
محسن نقوی 
محسن بھوپالی
 محسن احسان ؟؟؟

ﺍﭨﮭﺎﻧﯽ ﮨﮯ ﺗﻮ ﻧﻔﺮﺕ ﮐﯽ ﺍﭨﮭﺎ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ
ﻣﯿﺮﯼ ﺳﭽﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﮐﺮ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ

ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﯾﮧ ﮐﻮﮦ ﻏﻢ ﺍﭨﮭﺎﺅ ﮔﮯ؟
ﺟﻮﺍﺑﺎ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﺑﻮﻝ ﺍﭨﮭﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻟﺪﺍﺭ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ

ﺟﮩﺎﮞ ﮐﻮ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﮨﻢ ﺟﺐ ﺗﯿﺮﮮ ﮐﻮﭼﮯ ﻣﯿﮟ ﺁ ﺑﯿﭩﮭﮯ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺳﻨﮓ ﻣﻼﻣﺖ ﺳﮯ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ

ﭘﺠﺎﺭﯼ ﺯﺭ ﮐﮯﮨﻮ ﺗﻮ ﮨﺎﺗﮫ ﻣﯿﮟ ﺳﭻ ﮐﺎ ﻋﻠﻢ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ؟
ﺍﮔﺮ ﻣﻨﺼﻮﺭﮨﻮ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﯾﮧ ﺳﻨﮓ ﻭ ﺩﺍﺭ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ

ﮨﻤﯿﮟ ﺗﻮ ﻋﮩﺪ ﺍﻟﻔﺖ ﮐﻮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﺗﮏ ﻧﺒﮭﺎﻧﺎ ﮨﮯ
ﻭﮦ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺍﮔﺮ ﮨﻢ ﺳﮯ ﺭﮨﮯ ﺑﯿﺰﺍﺭ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ

ﮐﮩﺎ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺤﺴﻦ ! ﺳﺮ ﺗﯿﺮﺍ ﻗﻠﻢ ﮐﺮ ﺩﯾﮟ؟
ﻣﺆﺩﺏ ﮨﻮ ﮐﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮭﯽ ﮐﮩﺎ ﺳﺮﮐﺎﺭ ﺑﺴﻢ ﺍﻟﻠﮧ

*****************************
سعید خان

کوئی پیغام بسم اللہ، کوئی تحریر بسم اللہ
ادھر سینہ کشادہ ہے چلاو تیر بسم اللہ

فصیلِ درد سے آگے نئی تہذیب لازم ہے
ہمیں بھی توڑ کر پھر سے کرو تعمیر بسم اللہ

کسی نے تو خدائے وقت کا دشمن ٹھہرنا تھا
ہمارے سر کو آئی ہے اگر شمشیر بسم اللہ

کلامِ عشق سے ہو تو کوئی تحریک دل میں ہو
سخن اندازیِ مرزا و سوزِ میر بسم اللہ

محبت کے جواں سارس ہمالے کو نکلتے ہیں
مسافت چاہتی ہے پھر کوئی تدبیر بسم اللہ

کوئی دم ہجر کا اب تیری قربت سے نہیں خالی
کہ ہر روزن میں رہتی ہے تری تصویر بسم اللہ

اگر سرکار کو اپنے پرستاروں سے فرصت ہو
ہمیں بھی کھینچنی ہے اک بھلی تصویر بسم اللہ

جہاں قاتل کا جی بھر جائے بے صرفہ تماشے سے
نہیں بسمل کی جانب سے کوئی تاخیر بسم اللہ

سعید اس قہر میں کس کو یہاں انصاف ملتا ہے
تجھے ضد ہے تو پھر جا کر ہلا زنجیر بسم اللہ

Aik Radeef " Ke Beech" Me 23 Ghazlein



ایک ردیف کے بیچ میں 23 غزلیں
***********************
میر محمدی بیدار
کھو دیا نور بصیرت تو نے ما و من کے بیچ
جلوہ گر تھا ورنہ وہ خورشید تیرے من کے بیچ
پارۂ بےکار ہیں وحدت میں جب تک ہے دوئی
راہ یکتائی ہے رشتہ کے تئیں سوزن کے بیچ
صاف کر دل تاکہ ہو آئینہ رخسار یار
مانع روشن دلی ہے زنگ اس آہن کے بیچ
ظاہر و پنہاں ہے ہر ذرہ میں وہ خورشید رو
آشکار و مختفی ہے جان جیسے تن کے بیچ
دور ہو گر شامہ سے تیرے غفلت کا زکام
تو اسی کی بو کو پاوے ہر گل و سوسن کے بیچ
کوچہ گردی تا کجا جوں کاہ باد جرس سے
گاڑ کر پا بیٹھ مثل کوہ تو مسکن کے بیچ
کیوں عبث بھٹکا پھرے ہے جوں زلیخا شہر شہر
جلوۂ یوسف ہے غافل تیرے پیراہن کے بیچ
کب دماغ اپنا کہ کیجے جا کے گلگشت چمن
اور ہی گل زار اپنے دل کے ہے گلشن کے بیچ
مت مجھے تکلیف سیر باغ دے بیدار تو
گل سے رنگیں تر ہے یاں لخت جگر دامن کے بیچ
****************************
نظیر اکبرآبادی
اس کے بالا ہے اب وہ کان کے بیچ
جس کی کھیتی ہے جھوک جان کے بیچ
دل کو اس کی ہوا نے آن کے بیچ
کر دیا باؤلا اک آن کے بیچ
آتے اس کو ادھر سنا جس دم
آ گئی انبساط جان کے بیچ
راہ دیکھی بہت  نظیر اس کی
جب نہ آیا وہ اس مکان کے بیچ
پان بھی پانداں میں بند رہے
عطر بھی قید عطر دان کے بیچ
********************
عارف امام
سب لہو جم گیا ابال کے بیچ
کون یاد آ گیا وصال کے بیچ
ایک وقفہ ہے زندگی بھر کا
زخم کے اور اندمال کے بیچ
آن بیٹھا ہے ایک اندیشہ
گفتگو اور عرض حال کے بیچ
تال دیتی ہے جب کبھی وحشت
رقص کرتا ہوں میں خیال کے بیچ
کبھی ماتم میان رقص کیا
کبھی سجدہ کیا دھمال کے بیچ
ایک پردہ ہے بے ثباتی کا
آئینے اور ترے جمال کے بیچ
اک برس ہو گیا اسے دیکھے
اک صدی آ گئی ہے سال کے بیچ
میرے دامن کو دھونے والا ہے
ایک آنسو جو ہے رومال کے بیچ
********************
عباس تابش
بیٹھتا اٹھتا تھا میں یاروں کے بیچ
ہو گیا دیوار دیواروں کے بیچ
جانتا ہوں کیسے ہوتی ہے سحر
زندگی کاٹی ہے بیماروں کے بیچ
میرے اس کوشش میں بازو کٹ گئے
چاہتا تھا صلح تلواروں کے بیچ
وہ جو میرے گھر میں ہوتا تھا کبھی
اب وہ سناٹا ہے بازاروں کے بیچ
تم نے چھوڑا تو مجھے یہ طائراں
بھر کے لے جائیں گے منقاروں کے بیچ
تجھ کو بھی اس کا کوئی احساس ہے
تیری خاطر ٹھن گئی یاروں کے بیچ
***********************
عبید اللہ علیم
ایک میں بھی ہوں کلہ داروں کے بیچ
 میر صاحب کے پرستاروں کے بیچ
روشنی آدھی ادھر آدھی ادھر
اک دیا رکھا ہے دیواروں کے بیچ
میں اکیلی آنکھ تھا کیا دیکھتا
آئینہ خانہ تھے نظاروں کے بیچ
ہے یقیں مجھ کو کہ سیارے پہ ہوں
آدمی رہتے ہیں سیاروں کے بیچ
کھا گیا انساں کو آشوب معاش
آ گئے ہیں شہر بازاروں کے بیچ
میں فقیر ابن فقیر ابن فقیر
اور اسکندر ہوں سرداروں کے بیچ
اپنی ویرانی کے گوہر رولتا
رقص میں ہوں اور بازاروں کے بیچ
کوئی اس کافر کو اس لمحے سنے
گفتگو کرتا ہے جب یاروں کے بیچ
اہل دل کے درمیاں تھے میر تم
اب سخن ہے شعبدہ کاروں کے بیچ
آنکھ والے کو نظر آئے علیم
اک محمد مصطفی ساروں کے بیچ
**************************
گنیش بہاری طرز
اب کیا بتائیں کیا تھا سماں پیرہن کے بیچ
جذبات ہو رہے تھے جواں پیرہن کے بیچ
کیا جھلملی بھی روکتی گورے بدن کی آنچ
پگھلا ہوا تھا شعلہ رواں پیرہن کے بیچ
**********************
ماتم فضل محمد
تندرستوں میں نہ بیماروں کے بیچ
عشق کے ہوں میں دل افگاروں کے بیچ
عشق ہے سیر خدا اے دوستاں
اس لئے اشرف ہے اسراروں کے بیچ
منزل دور و دراز عشق میں
غم کو پایا ہم نے غم خواروں کے بیچ
دوستاں ہے لا دوا دور از شفا
عشق کا آزار آزاروں کے بیچ
اب تو ہے کنج قفس گھر پر کبھی
بلبلو تھے ہم بھی گلزاروں کے بیچ
کیا کہیں ہم کہہ نہیں سکتے ہیں یار
اندکوں میں ہے کہ بسیاروں کے بیچ
جس کے جویا مومن و مشرک ہیں وہ
سبحوں میں ہے نہ زناروں کے بیچ
رحم کر ہم پر بھی دل بر ہیں ترے
عشق کے ہاتھوں سے آواروں کے بیچ
گل نے تا دعوی کیا رخ سے ترے
بے قدر بکتا ہے بازاروں کے بیچ
یا حسین ابن علی ماتم کو بھی
کیجے داخل اپنے زواروں کے بیچ

*****************************
محسن خان محسن
آج دی تعلیم گت گت کی مجھے تالوں کے بیچ
اب نہ آؤں گی کبھی استاد کی چالوں کے بیچ
چوم کر زلف دوتا پھنستا نہیں جالوں کے بیچ
صاف بچ جاتا ہے گورا سیکڑوں کالوں کے بیچ
میں تو خود کہتی ہوں باجی خاک ڈالوں شیخ پر
پھانس لیتا ہے نگوڑا پیار کی چالوں کے بیچ
بھولا پن خود کر رہا ہے سرخیٔ لب سے حضور
سوت کی بیڑی بھری ہے آج ان گالوں کے بیچ
ہوتے تھے دو چار دولہا پہلے کیا کیا پیار سے
بگڑے اب کیا کیا بوا دو چار ہی سالوں کے بیچ
نوج لوں شالیں کسی کی میں بوا شل ہو گئی
بھیجے خط سوکن کے مجھ کو ڈال کر شالوں کے بیچ
اپنی بدحالی پہ گوئیاں تھا فلک نالہ کناں
آج پھر شکر خدا ہم بھی ہیں خوشحالوں کے بیچ
بات ہے بگڑی گھڑی کی صاف جو ہوتے نہیں
چلتے پرزے ہیں مجھے لاتے ہیں وہ چالوں کے بیچ
سنتے ہی بے چین ہو کر آ گئے ڈولی میں ہم
کس بلا کا ہے اثر  محسن ترے نالوں کے بیچ
************************
میر اثر
دیکھ کر دل کو پیچ و تاب کے بیچ
آ پڑا مفت میں عذاب کے بیچ
کون رہتا ہے تیرے غم کے سوا
اس دل خانماں خراب کے بیچ
تیرے آتش زدوں نے مثل شرار
عمر کاٹی ہے اضطراب کے بیچ
کیا کہوں تجھ سے اب کے میں تجھ کو
کس طرح دیکھتا ہوں خواب کے بیچ
شمع فانوس میں نہ جب کے چھپے
کب چھپے ہے یہ منہ نقاب کے بیچ
ٹک تبسم نے کی شکر ریزی
بارے اب تلخیٔ عتاب کے بیچ
کیا کہے وہ کہ سب ہویدا ہے
شان تیری تری کتاب کے بیچ
ہے غلامی اثر کو حضرت  درد
بہ دل و جاں تری جناب کے بیچ
*********************
حسین تاج رضوی
الجھنیں اتنی تھیں منظر اور پس منظر کے بیچ
رہ گئی ساری مسافت میل کے پتھر کے بیچ
رخ سے یہ پردہ ہٹا بے ہوش کر مجھ کو طبیب
گفتگو جتنی بھی ہو پھر زخم اور نشتر کے بیچ
اس کو کیا معلوم احوال دل شیشہ گراں
ورنہ آ جاتا کبھی تو ہاتھ اور پتھر کے بیچ
شوق سجدہ بندگی وارفتگی اور بے خودی
معتبر سب اس کی چوکھٹ اور میرے سر کے بیچ
اک قیامت حسن اس کا اور وہ بھی جلوہ گر
میں فقط مبہوت جادو اور جادوگر کے بیچ
میں بھی خودداری کا مارا تھا صفائی کچھ نہ دی
اس نے بھی مطلب نکالے لفظ اور تیور کے بیچ
وقت اور مصروفیت کے مسئلے سب اک طرف
دوریاں اتنی نہیں تھیں تاج اپنے گھر کے بیچ
**************************
سرسوتی سرن کیف
کھاتے ہیں ہم ہچکولے اس پاگل سنسار کے بیچ
جیسے کوئی ٹوٹی کشتی پھنس جائے منجدھار کے بیچ
ان کے آگے گھنٹوں کی عرض وفا اور کیا پایا
ایک تبسم مبہم سا اقرار اور انکار کے بیچ
دونوں ہی اندھے ہیں مگر اپنے اپنے ڈھب کے ہیں
ہم تو فرق نہ کر پائے کافر اور دیں دار کے بیچ
عشق پہ بو الہوسی کا طعن یہ بھی کوئی بات ہوئی
کوئی غرض تو ہوتی ہے پیار سے ہر ایثار کے بیچ
یوں تو ہمارا دامن بس ایک پھٹا کپڑا ہے مگر
ڈھونڈھو تو پاؤ گے یہاں سو سو دل ہر تار کے بیچ
جیسے کالے کیچڑ میں اک سرخ کمل ہو جلوہ نما
ایسے دکھائی دیتے ہو ہم کو تو اغیار کے بیچ
یہ ہے دیار عشق یہاں کیف خرد سے کام نہ لے
فرق نہیں کر پائے گا مجنوں و ہشیار کے بیچ
*****************************
سید نصیر شاہ
جدا نہیں ہے ہر اک موج دیکھ آب کے بیچ
حباب بحر میں ہے بحر ہے حباب کے بیچ
لگا ہے جس سے مرے دل میں عشق کا کانٹا
ہوں مثل ماہیٔ بے تاب پیچ و تاب کے بیچ
کسو کے دل کی عمارت کا فکر کر منعم
بنا نہ گھر کو تو اس خانہ خراب کے بیچ
ہر ایک چلنے کو یاں مستعد ہے شاہ سوار
زمیں پہ پاؤں ہے اک دوسرا رکاب کے بیچ
برنگ شمع چھپے حسن جلوہ گر کیوں کر
ہزار اس کو رکھیں برقع و نقاب کے بیچ
 نصیر آنکھوں میں اپنی لگے ہے یوں دو جہاں
خیال دیکھتے ہی جیسے شب کو خواب کے بیچ

****************************
شاہ نصیر
گھٹ کے رہ جاؤں گا بے احساس غم خواروں کے پیچ
آ گیا ہوں اپنے ہی کمرے کی دیواروں کے بیچ
میں مرا دل رات پیلا چاند تیری یاد کا
مر رہی ہے اک کہانی اپنے کرداروں کے بیچ
مرتعش ہیں چند سانسیں تو سکوت شہر میں
کوئی تو زندہ ہے اس ملبے کے انباروں کے بیچ
گھٹ کے مر جائیں ندامت سے نہ اپنے رہنما
پھنس گئی ہیں گردنیں تحسین کے ہاروں کے بیچ
*************************
شاہد ذکی
زنجیر کٹ کے کیا گری آدھے سفر کے بیچ
میں سر پکڑ کے بیٹھ گیا رہ گزر کے بیچ
اترا لحد میں خواہشوں کے ساتھ آدمی
جیسے مسافروں بھری ناؤ بھنور کے بیچ
دشمن سے کیا بچائیں گی یہ جھاڑیاں مجھے
بچتے نہیں یہاں تو پیمبر شجر کے بیچ
جتنا اڑا میں اتنا الجھتا چلا گیا
اک تار کم نما تھا مرے بال و پر کے بیچ
دیتے ہو دستکیں یہاں سر پھوڑتے ہو واں
کچھ فرق تو روا رکھو دیوار و در کے بیچ
گھر سے چلا تو گھر کی اداسی سسک اٹھی
میں نے اسے بھی رکھ لیا رخت سفر کے بیچ
تھکنے کے ہم نہیں تھے مگر اب کے یوں ہوا
دیتا رہا فریب ستارہ سفر کے بیچ
میرا سبھی کے ساتھ رویہ ہے ایک سا 
شاہد مجھے تمیز نہیں خیر و شر کے بیچ

*****************************
 شیخ ظہور الدین حاتم
بے ترے جان نہ تھی جان مری جان کے بیچ
آن کر پھر کے جلایا تو مجھے آن کے بیچ
ایک دن ہاتھ لگایا تھا ترے دامن کو
اب تلک سر ہے خجالت سے گریبان کے بیچ
تو نے دیکھا نہ کبھی پیار کی نظروں سے مجھے
جی نکل جائے گا میرا اسی ارمان کے بیچ
آج عاشق کے تئیں کیوں نہ کہے تو در در
واسطہ یہ ہے کہ موتی ہے ترے کان کے بیچ
ہوئی زباں لال ترے ہاتھ سے کھا کے بیڑا
کیا فسوں پڑھ کے کھلایا تھا مجھے پان کے بیچ
کچھ تو مجنوں کو حلاوت ہے وہاں دیوانو
چھوڑ شہروں کو جو پھرتا ہے بیابان کے بیچ
دیکھ حاتم کو بھلا تو نے برا کیوں مانا
کیا خلل اس نے کیا آ کے تری شان کے بیچ

**************************
ضیا جالندھری
خون کے دریا بہہ جاتے ہیں خیر اور خیر کے بیچ
اپنے آپ میں سب سچے ہیں مسجد و دیر کے بیچ
لاگ ہو یا کہ لگن ہو دونوں ایک دیے کی لویں
ایک ہی روشنی لہراتی ہے پیار اور بیر کے بیچ
دل میں دھوپ کھلے تو اندھیرے چھٹ جاتے ہیں آپ
اب ہم فرق روا نہیں رکھتے یار اور غیر کے بیچ
سوچ سمجھ سب سچ ہے لیکن دل کی بات ہے اور
دور تھی یوں تو آنکھ بھنور کی پہنچا تیر کے بیچ
جاتے ہو پہ قدم اٹھنے سے پہلے دھیان رہے
عمر کا فاصلہ ہو سکتا ہے پیر اور پیر کے بیچ
دیکھتی آنکھ ضیا حیراں ہے دیکھ کے دہر کے رنگ
پل کی پل میں بدل جاتے ہیں منظر سیر کے بیچ
*****************************
آشا پربھات
دیر و حرم بھی آئے کئی اس سفر کے بیچ
میری جبین شوق ترے سنگ در کے بیچ
کچھ لذت گناہ بھی ہے کچھ خدا کا خوف
انسان جی رہا ہے اسی خیر و شر کے بیچ
یہ خواہش وصال ہے یا ہجر کا سلوک
چٹکی سی لی ہے درد نے آ کر جگر کے بیچ
بچھڑے تو یہ ملال کی سوغات بھی ملی
تاکید تھی خیال نہ آئے سفر کے بیچ
خوشبو کی طرح لفظ تھے معنی بہ قید رنگ
یہ مرحلے بھی آئے ہیں عرض ہنر کے بیچ
دلہن بنی تھی آشاؔ وہ شب یاد ہے مجھے
گم تھے مرے حواس ہجوم نظر کے بیچ
*************************
آلوک مشرا
پھر تری یادوں کی پھنکاروں کے بیچ
نیم جاں ہے رات یلغاروں کے بیچ
اونگھتا رہتا ہے اکثر ماہتاب
رات بھر ہم چند بے داروں کے بیچ
گونجتی رہتی ہے مجھ میں دم بہ دم
چیخ جو ابھری نہ کہساروں کے بیچ
دیکھتا آخر میں اس کو کس طرح
روشنی کی تیز بوچھاروں کے بیچ
کھو ہی جاتا ہوں ترے قصے میں میں
بارہا گمنام کرداروں کے بیچ
ایک ادنی سا دیا ہے آفتاب
میرے من کے گہرے اندھیاروں کے بیچ
قید سے اپنی نکلتے کیوں نہیں
زخم کب بھرتے ہیں دیواروں کے بیچ
سانحے چھپنے لگے ہیں آنکھوں میں
نبض تھم جائے نہ اخباروں کے بیچ
تھا مہاوٹ اور پھر جڑواں بہاؤ
بہہ گیا میں گنگنے دھاروں کے بیچ
************************
احسن احمد اشک
انگ انگ جھلک اٹھتا ہے انگوں کے درپن کے بیچ
مان سروور امڈے امڈے ہیں بھرپور بدن کے بیچ
چاند انگڑائی پر انگڑائی لیتے ہیں جوبن کے بیچ
مدھم مدھم دیپ جلے ہیں سوئے سوئے نین کے بیچ
مکھڑے کے کئی روپ دودھیا چاندنی بھور سنہری دھوپ
رات کی کلیاں چٹکی چٹکی سی بالوں کے بن کے بیچ
متھرا کے پیڑوں سے کولہے چکنے چکنے سے گورے
روپ نرت کے جاگے جاگے چھتیوں کی تھرکن کے بیچ
جیسے ہیروں کا مینارہ چمکے گھور اندھیرے میں
دیوالی کے دیپ جلے ہیں چولی اور دامن کے بیچ
من میں بسا کر مورت اک ان دیکھی کامنی رادھا کی 
احمد ہم تو کھو گئے برندابن کی کنج گلین کے بیچ
***********************
احمد فراز
پیچ رکھتے ہو بہت صاحبو دستار کے بیچ
ہم نے سر گرتے ہوئے دیکھے ہیں بازار کے بیچ
باغبانوں کو عجب رنج سے تکتے ہیں گلاب
گل فروش آج بہت جمع ہیں گلزار کے بیچ
قاتل اس شہر کا جب بانٹ رہا تھا منصب
ایک درویش بھی دیکھا اسی دربار کے بیچ
کج اداؤں کی عنایت ہے کہ ہم سے عشاق
کبھی دیوار کے پیچھے کبھی دیوار کے بیچ
تم ہو نا خوش تو یہاں کون ہے خوش پھر بھی فراز
لوگ رہتے ہیں اسی شہر دل آزار کے بییچ

***********************
اسحاق اطہر صدیقی
آشنا نا آشنا یاروں کے بیچ
منقسم ہوں کتنی دیواروں کے بیچ
سانس بھی لیتے نہیں کیا راستے
کیا ہوا بھی چپ ہے دیواروں کے بیچ
ایک بھی پہچان میں آتی نہیں
صورتیں کتنی ہیں بازاروں کے بیچ
دیکھنا ہے کس کو ہوتی ہے شکست
آئنہ ہے ایک تلواروں کے بیچ
کیسی دھرتی ہے کہ پھٹتی بھی نہیں
رقص مجبوری ہے مختاروں کے بیچ
اپنا اپنا کاسہ غم لائے ہیں
ہے نمائش سی عزاداروں کے بیچ
ہے انہی سے رونق بزم حیات
پھول کھلتے ہیں جو انگاروں کے بیچ
کیا شعاع مہر آتی ہے کبھی
آسماں بر دوش دیواروں کے بیچ
ہم بھی اطہر میر صاحب کے طفیل
شعر کہتے ہیں طرح داروں کے بیچ

**************************
 اعجاز گل
کبھی قطار سے باہر کبھی قطار کے بیچ
میں ہجر زاد ہوا خرچ انتظار کے بیچ
بنا ہوا ہے تعلق سا استواری کا
مرے طواف سے اس محور و مدار کے بیچ
کہ آتا جاتا رہے عکس حیرتی اس میں
بچھا دیا گیا آئینہ آر پار کے بیچ
ہوا کے کھیل میں شرکت کے واسطے مجھ کو
خزاں نے شاخ سے پھینکا ہے رہ گزار کے بیچ
یہ میں ہوں تو ہے ہیولی ہے ہر مسافر کا
جو مٹ رہا ہے تھکن سے ادھر غبار کے بیچ
کوئی لکیر سی پانی کی جھلملاتی ہے
کبھی کبھی مرے متروک آبشار کے بیچ
میں عمر کو تو مجھے عمر کھینچتی ہے الٹ
تضاد سمت کا ہے اسپ اور سوار کے بیچ

 **************************
انور مسعود
کیسی کیسی آیتیں مستور ہیں نقطے کے بیچ
کیا گھنے جنگل چھپے بیٹھے ہیں اک دانے کے بیچ
رفتہ رفتہ رخنہ رخنہ ہو گئی مٹی کی گیند
اب خلیجوں کے سوا کیا رہ گیا نقشے کے بیچ
میں تو باہر کے مناظر سے ابھی فارغ نہیں
کیا خبر ہے کون سے اسرار ہیں پردے کے بیچ
اے دل ناداں کسی کا روٹھنا مت یاد کر
آن ٹپکے گا کوئی آنسو بھی اس جھگڑے کے بیچ
سارے اخباروں میں دیکھوں حال اپنے برج کا
اب ملاقات اس سے ہوگی کون سے ہفتے کے بیچ
میں نےانور اس لیے باندھی کلائی پر گھڑی
وقت پوچھیں گے کئی مزدور بھی رستے کے بیچ
 **************************
عدیم ہاشمی
اُس نے دِل پھینکا خریداروں کے بیچ
پھر کوئی مَحشر تھا بازاروں کے بیچ
تُو نے دیکھی ہے پرستِش حُسن کی
آ کبھی اپنے پرستاروں کے بیچ
سر ہی ٹکرا کے گُزر جاتے ہو کیوں
گھر بھی کُچھ ہوتے ہیں دیواروں کے بیچ
تُو کہاں اس ریگزارِ دہر میں
پھُول تو کِھلتے ہیں گُلزاروں کے بیچ
یہ سماں تُو نے بِتایا تھا کہاں
آ پلٹ جائیں اُنہی غاروں کے بیچ
کوئی سِکّہ بِیچ میں گِرتا نہیں
چاند وہ کشکول ہے تاروں کے بیچ
وہ کبُوتر گُنبدوں پر یاد ہیں
وہ پتنگ اُن دونوں میناروں کے بیچ
فاختائیں بھی ابابیلیں بھی ہیں
کُچھ نہیں موجُود مِنقاروں کے بیچ
رات بھر آتی ہے آہوں کی صدا
کِس کو چُنوایا ہے دیواروں کے بیچ
یوں اُسے دیکھا غنیموں میں عدیم
جیسے کوئی پھول تلواروں کے بیچ

**************************
ﻣﺤﺴﻦ ﻧﻘﻮﯼ
ﻗﺘﻞ ﭼﮭﭙﺘﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﺳﻨﮓ ﮐﯽ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺍﺏ ﺗﻮ ﮐﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﮯ ﻣﻘﺘﻞ ﺑﮭﺮﮮ ﺑﺎﺯﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺍﭘﻨﯽ ﭘﻮﺷﺎﮎ ﮐﮯ ﭼﮭﻦ ﺟﺎﻧﮯ ﭘﮧ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﻧﮧ ﮐﺮ
ﺳﺮ ﺳﻼﻣﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮨﺘﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﺩﺳﺘﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺳﺮﺧﯿﺎﮞ ﺍﻣﻦ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﻣﯿﮟ ﻣﺼﺮﻭﻑ ﺭﮨﯿﮟ
ﺣﺮﻑ ﺑﺎﺭﻭﺩ ﺍﮔﻠﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺍﺧﺒﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﮐﺎﺵ ﺍﺱ ﺧﻮﺍﺏ ﮐﯽ ﺗﻌﺒﯿﺮ ﮐﯽ ﻣﮩﻠﺖ ﻧﮧ ﻣﻠﮯ
ﺷﻌﻠﮯ ﺍﮔﺘﮯ ﻧﻈﺮ ﺁﺋﮯ ﻣﺠﮭﮯ ﮔﻠﺰﺍﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﮈﮬﻠﺘﮯ ﺳﻮﺭﺝ ﮐﯽ ﺗﻤﺎﺯﺕ ﻧﮯ ﺑﮑﮭﺮ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺳﺮ ﮐﺸﯿﺪﮦ ﻣﺮﺍ ﺳﺎﯾﺎ ﺻﻒ ﺍﺷﺠﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺭﺯﻕ، ﻣﻠﺒﻮﺱ ، ﻣﮑﺎﮞ، ﺳﺎﻧﺲ، ﻣﺮﺽ، ﻗﺮﺽ، ﺩﻭﺍ
ﻣﻨﻘﺴﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺍﻧﺴﺎﮞ ﺍﻧﮩﯽ ﺍﻓﮑﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ
ﺩﯾﮑﮭﮯ ﺟﺎﺗﮯ ﻧﮧ ﺗﮭﮯ ﺁﻧﺴﻮ ﻣﺮﮮ ﺟﺲ ﺳﮯ ﻣﺤﺴﻦ
ﺁﺝ ﮨﻨﺴﺘﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﻏﯿﺎﺭ ﮐﮯ ﺑﯿﭻ

**************************
سعود عثمانی
اور اب دماغ نشانی نہ دل حوالہ مرا
بدلتے وقت نے ماضی ہی مار ڈالا مرا
نبھا سکا نہ تعلق تو معذرت کیسی
پڑا تھا پہلی دفعہ زندگی سے پالا مرا
میں روز اس میں نئی دھوپ بھر کے پیتا ہوں
پگھلتا جاتا ہے یہ برف کا پیالہ مرا
دراز ہوگئی جب شب ہزار راتوں تک
کسی نے کھینچ کے مغرب سے دن نکالا مرا
مئے کہن ہے مگر تازگی تو چکھ اس کی
نیا نکور ہے لہجہ ہزار سالہ مرا
میں روز رات کو دل میں قیام کرتا ہوں
شبِ سیاہ میں کھلتا ہے دشت ِ لالہ مرا
 
**************************
سعود عثمانی
مہ ِ تمام ذرا دیکھ تو اجالا مرا
کسی کی دین ہے یہ ہفت رنگ ہالہ مرا
میں طفل تھا سو مجھے بار تھی محبت بھی
کسی نے پھر بڑے جتنوں سے عشق پالا مرا
خدا کو مان ! میں خود کو گنوا کے بیٹھا ہوں
ترے وصال سے ہوتا ہے کب ازالہ مرا
ہر اک کے واسطے ہوتا تو ہے کوئی نہ کوئی
کہیں تو ہوگا کوئی شخص لامحالہ مرا
میں خود نہیں ہوں یقیناً تو اور کون ہے وہ
سعود ہے تو کوئی پیار کرنے والا مرا

Gulbadani,Gulbadani,Gulbadani



تین نظمیں
جوش ملیح آبادی / پیر نصیرالدین نصیر / خالد رومی نظامی
**************************************
گلبدنی 


جوش ملیح آبادی
کیا شعلۂ طرّار وہ اللہُ غنی ہے
کیا لرزشِ تابندگیِ سیم تنی ہے
رشکِ مہِ کنعاں ہے غزالِ خُتنی ہے
افشاں ہے کہ آمادگیِ دُر شکنی ہے
تاروں میں بپا غلغلۂ سینہ زنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
ہر موجۂ انفاس میں دجلے کی روانی
ہر لرزشِ مژگاں میں نئی خواب فشانی
ہر لوچ میں بھیگی ہوئی شاخوں کی کہانی
ہر تان میں پربت کا برستا ہوا پانی
ہر بول میں اک چشمۂ شیریں سخنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
پلّو ہے یہ سینے پہ کہ اک موجِ حبابی
ماتھا کہ خنک صبح کی تنویرِ شہابی
یکر ہے کہ انسان کے سانچے میں گلابی
آنکھیں ہیں کہ بہکے ہوئے دو مست شرابی
قامت کا خم و چم ہے کہ سروِ چمنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
زلفیں ہیں شبِ مالوا رخ صبحِ بہاراں
شوخی ہے کہ بھونچال ترارے ہیں کہ طوفاں
عشوے ہیں کہ شمشیر تبسم ہے کہ پیکاں
مہندی کی سجاوٹ کہ ہتھیلی پہ گلستاں
مکھڑے کی دمک ہے کہ عقیقِ یمنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
آواز میں ہے سلطنتِ زمزمہ خوانی
انداز میں ہے جنبشِ بُرّان و سنانی
ہر ایک بُنِ مو سے ابلتی ہے جوانی
اٹھتی ہے مسامات سے اک بھاپ سی دھانی
اک چادرِ خوش بو ہے کہ آنگن میں تنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
گردن میں چنن ہار کلائی میں ہے کنگن
کورا ہے جو پنڈا تو جنوں خیز ہے اُبٹن
جولاں ہے جوانی کے دھندلکے میں لڑکپن
ابھری ہوئی چولی ہے پھبکتا ہوا جوبن
گُل رنگ شلوکا ہے قبا ناروَنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
ہونٹوں میں ہے مہکار کہ ہے رات کی رانی
نقشِ قدمِ ناز ہے یا تاجِ کیانی
کشتی کا تلاطم ہے کہ نَوکار جوانی
ساحل کا خُمستاں ہے کہ پوشاک ہے دھانی
برکھا کی خنک چھاؤں ہے یا زلف گھنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
بل کھائی لٹوں میں ہے یہ پیشانیِ رخشاں
ا سایۂ ظلمات میں ہے چشمۂ حیواں
یکا ہے کہ ساگر میں جواں چاند ہے غلطاں
اتوں پہ یہ مکھڑا ہے کہ ہے رحلِ پہ قرآں
تل ہے کہ دھنوائی ہوئی ہیرے کی کنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
کس لوچ سے چونکی ہے دُھندَلکے کو جگانے
الجھی ہوئی زلفوں میں دھواں دار فسانے
بند دُھوئے خد و خال میں نیندوں کے خزانے
انگڑائی کی جھنکار میں ندّی کے ترانے
رخسار میں چبھتی ہوئی اعضا شکنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
تانیں ہیں کہ اک فوج کھڑی لُوٹ رہی ہے
توڑا ہے کہ چھاتی کو زمیں کُوٹ رہی ہے
بِیندی ہے کہ پربت پہ کرن پھوٹ رہی ہے
انگڑائی کا خم ہے کہ دھنک ٹُوٹ رہی ہے
مکھڑا ہے یہ قامت پہ کہ نیزے پر انی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
پہلو میں خموشی ہے شبستاں میں تکلم
جلوت میں تواضع ہے تو خلوت میں تحکم
حجرے میں ہے تکرار تو مجرے میں ترنم
مسند پہ تنک موج ہے بستر پہ تلاطم
آغوش میں تلوار ہے گھونگھٹ میں بنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
پہنچا ہے سرِ بامِ حرم دیر کا طوفاں
رقصندہ ہے پھر وہ صنمِ فتنۂ دوراں
غزنی میں پکار آؤ کہ پھر کفر ہے جولاں
مُوباف کے لچکے میں لپیٹے ہوئے ایماں
اب آئے جسے حوصلۂ بت شکنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے
اس سِن میں بھی پڑتی ہیں چھلاووں پہ نگاہیں
اب بھی ہیں وہی شوق کی اگلی سی کراہیں
اب بھی یہ دعا ہے کہ مِلیں پھول سی بانہیں
مر جائیں ہم اے جوش بتوں کو جو نہ چاہیں
گُھٹّی میں پڑی عاشقی و برہمنی ہے
کیا گل بدنی گل بدنی گل بدنی ہے
کیا گل بدنی ہے

************************

 گلبدنی 


پیر نصیر الدین نصیر
کیا حسن کا شاہ کار وہ اللہ ُ غنی ہے
قامت میں دل آویزی سروِ چمنی ہے
سَر تا بہ قدم مؤَجہ ۔شیریں سخنی ہے​
دو شیزۂِ کہسار و غزالِ خُتَنی ہے
دانتوں کی چمک رو کشِ دُرّعدنی ہے
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

شانوں پہ ہیں گیسو کہ گھٹائیں ہیں معنبر
لب کیفِ تکلم سے کھنکتے ہوئے ساغر​
پیشانی ضَوْ بار ہے یا ماہِ منور
ابرو ہیں کماں رنگ ،مژہ ناوکِ خود سر​
مکھڑے پہ ہے جو خال ،عقیقِ یمنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

اَنْفَاس کی خوشبو ہے کہ مہکا ہوا گلشن
زلفوں کی گھنی چھاؤں کہ امڈا ہو ا ساون
جھکتی سی نگاہیں تو ابھرتا ہوا جوبن
بجتے ہوئے پنڈے کی وہ ہر تار کی جَھن جَھن
چہرہ جو گلابی تو قبا ناروَنی ہے
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

قامت کا خَم و چَم ہے کہ دجلے کی روانی
نقشِ کفِ پا رُو کشِ صد تاجِ کیانی
زلفوں کے سیہ ابر کی وہ عطر فشانی
گل رنگ پسینے میں ہے غرقاب جوانی​
جو بوند ہے ماتھے کی وہ ہیرے کی کنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

انداز ہیں اعجاز ،کرشمہ ہیں ادائیں
سلجھائے جو گیسو تو الجھتی ہیں گھٹائیں
کلیوں کی چٹک ،لیتی ہے لہجے کی بلائیں
مل جائے جو ہم کو تو کلیجے سے لگائیں
دل میں ہے یہی بات جو مدت سے ٹھنی ہے ​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

غمزے ہیں کہ آفت ہیں،اشارے ہیں کہ طوفاں
باتیں ہیںکہ گھاتیں ہیں ،تبسم کہ گلستاں
شوخی ہے کہ بجلی ہے ،خموشی ہے کہ پیکاں​
چہرے پہ تجلی ہے کہ ہے ماہِ زمستاں
سانسوں میںوہ لَپٹیں ہیں کہ جانوں پہ بنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

تیور ہیں کہ تلوار، ادائیں ہیں کہ خنجر
عشوے ہیں کہ نیزے ہیں نگاہیں ہیں کہ نشتر
پلکیں ہیں کہ شب خوں پہ کمر بستہ ہے لشکر​
یہ چیں جبیں ہے کہ عقوبت گہِ محشر
قامت ہے کہ نیزہ ہے نظر ہے کہ اَنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

ماتھے پہ پھبن ،پھول سے ہونٹوں پہ تبسم
رخسار کے دریا میں ہے جلووں کا تلاطم
افکار میں ندرت ہے تو لفظوں میں ترنم
لہجے میں تحمل ہے تو باتوں میں تحکم
مہکائے ہوئے بزم کو عنبر دہنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

یہ مانگ میں افشاں ہے کہ رخشندہ ستارے
اٹھتا ہوا جو بن ہے کہ مڑتے ہوئے دھارے
تابندہ خدو خال کہ رقصندہ شرارے
جنبیدہ لَٹیں ہیں کہ چکاروں کے طرارے​
ساون کی سیہ رات ہے یا زلف گھنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

چلتی ہے تو مل جاتی ہیں راہوں کو زبانیں
چِھٹکاتی ہے جب زلف ،برس پڑتی ہیں تانیں​
آتی ہے جماہی تو درکتی ہیں چٹانیں
انگڑائی جو لیتی ہے ،کڑکتی ہیں کمانیں
ابرو میں لیے جذبۂِ ناوک فِگنی ہے
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

وہ قہر سے دیکھے تو سمندر کو سکھادے
چاہے تو اداؤں سے پہاڑوں کو ہلا دے
شوخی پہ جو اُترے تو دو عالم کو نچادے
کیوںخانہ عشاق کو پل بھر میں نہ ڈھادے​
کعبے میں جسے حوصلہ ِ نقب زنی ہے
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

ہر بول میں ہے بادۂِ گل کوں کی روانی
ہر مَوجہ انفاس میں ہے زمزمہ خوانی
خوں ریز اشارے ہیں تو قاتل ہے جوانی
ہے جھیل سی آنکھوں میں چمکتا ہوا پانی
وہ شعلہ ہے جلوت میں تو خلوت میں بَنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

شوخی میں بھرے دولتِ دیرینۂِ قطبین
چوٹی میں لپیٹے شبِ رعنائی دارَین
الٹے ہوئے گھونگھٹ تو اتارے ہوئے نعلین
وہ بنتِ قمر آگئی ،لے داورِ کونین
یہ دینِ مقدس ہے یہ دنیائے دَنی ہے
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

غنچے کا دکھائی ہے سماں تنگ دہانی
نطق ایسا کہ بپھرے ہوئے دریا کی روانی
اندازِ تخاطب میں غرورِ ہمہ دانی
الفاظ میں ہیں گوہرِ صد رنگ معانی
اِن کا جو نہ قائل ہو وہ گردن زَدَنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

اٹھتا نہیں گھونگھٹ کی طرف دست ِحنائی
ہر انگ لجاتا ہے دمِ چہرہ کشائی
نظروں کی گرانی سے مُڑَکتی ہے کلائی
حاصل ہے جسے اِس درِ دولت کی گدائی
وہ خسرو آفاق کی مانند غنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے
سِن ہے جو تروتازہ تو رخسار ہیں شاداب
جلد اتنی ملائم کہ خجل قَاقُم و سنجاب
پلکوں کے جھپکنے میں ہے آمادگی خواب
نظروں میں جو لہریں ہیں تو آنکھوں میں ہے گرداب​
شبنم کی دُلَائِی سی شبستاں میں تنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

سرشار مناظر ہیں ،جنوں خیز ہوائیں
قاتل ہے تبسم تو قیامت ہیں ادائیں
پہلو میں ہے وہ شوخ معطر ہیں فضائیں
اِس وقت سے کہ گِھرتی چلی آتی ہیں، گھٹائیں​
ساغر کو پَٹک دوں تو یہ ایماں شکنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

دیکھو اسے ہنگامِ برافگندہ نقابی
اک مصحفِ تابندہ ہے یا روئے کتابی
نغمہ ہے نظر ،آنکھ کے ڈورے ہیں ربابی
کلیوں کی مہک جسم میں ،مکھڑا ہے گلابی​
یہ شکل و شباہت نہ بنے گی نہ بنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

آہنگِ جوانی پہ سموات ہیں رقصاں
آواز ہے اک نغمہ ،تو لہجہ گلِ خنداں
بنیادِ دو عالم ہے اشارات سے لرزاں
مسقط دلِ عشاق ہے چاہ زنخداں​
وہ مؤجہ تابندگی سیم تنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

تھم جائے وہیں ،دیکھے اگر گردشِ دوراں
ہو واعظِ بے چارہ بھی انگشتِ بدنداں
الحاد کے زانو میں ہے سویا ہوا ایماں
اعلانِ خدائی ہے لبِ کفر پہ خنداں​
اب آئے جسے ولولۂِ بت شکنی ہے
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

کچھ غم نہیں الفت میں جو دن رات کراہیں
چبھتی رہیں سینے میں وہ بے باک نگاہیں
دُھن ہے کہ گلے میں رہیں وہ پھول سی بانہیں
کیونکر نہ نصیر اُس بتِ نوخیز کو چاہیں ​
رگ رگ میں رچی عاشقی و برہمنی ہے​
کیا گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ، گُل بَدَنی ہے

*************************

گلبدنی




خالد رومی نظامی
یہ سامنے آنکھوں کے جو نازک بدنی ہے
پھولوں کی جوانی ہے, بہار چمنی ہے
اک مرمریں پیکر ہے, غزال ختنی ہے
ہلچل ھے بپا, خلق کی جانوں پہ بنی ہے
تصویر نزاکت کی یہ, اللہ غنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

محشر کی ھے تصویر, ہلاکت کا ہے نقشہ
قامت کا خد و خال, قیامت کا ہے نقشہ
نظارہ جو اس رخ کا تلاوت کا ہے نقشہ
شوخی ہے, سراپا میں رعونت کا ہے نقشہ
زنجیر حوادث کی یہی زلف گھنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

انفاس کی خوشبو سے گلستاں ہیں معنبر
ابرو جو کماں دار تو مژگاں بھی ہیں نشتر
چہرے کی تجلی سے پشیماں مہ و اختر
جلوے ہیں قیامت تو خد وخال ہیں محشر
شوخی ہے, طبیعت میں بھری نیش زنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

گلشن کی جوانی کو مسلتے ہوۓ آۓ
لہروں کی طرح جوش میں بپھرے ہوۓ آۓ
جھنڈے وہ رعونت کے یوں گاڑے ہوۓ آۓ
دل زلف کی زنجیر میں باندھے ہوۓ آۓ
ہر دانت پری وش کا عقیق یمنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

آتی ہیں جسے دیکھ کے پھولوں کو حیائیں
زلفوں سے ہوں شرمندہ یہ گھنگور گھٹائیں
بلبل کے ترنم میں ہیں خاموش ثنائیں
تارے جو تصدق ہیں, تو لے چاند بلائیں
رونق مرے گلشن کی وہ عنبر دہنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

رخسار کی گرمی کا بیاں کس سے ہو ممکن
جبریل بھی دیکھے جو کہیں آج وہ کمسن
ایماں کا نہیں اس کے اے زاہد ! کوئی ضامن
الحاد کے عالم میں, رہے کیسے وہ مومن
ہر ایک ادا باعث ایماں شکنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

نغمے ہیں نہاں حسن ترنم میں ہزاروں
طوفان حوادث ہیں تبسم میں ہزاروں
ڈوبے انھی جلووں کے تلاطم میں ہزاروں
گم اہل خرد دیکھے تکلم میں ہزاروں
لہجے میں عجب موجہء شیریں سخنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

چہرے کے خط و خال کی ھے دھار نرالی
دنیا کے خطیبوں سے ھے گفتار نرالی
ہونٹوں پہ ھے انکار کی تکرار نرالی
بجتی ہوئی پازیب کی جھنکار نرالی
سر تا بہ قدم نور کی چادر سی تنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

ہر سمت مچی خلق میں ہے ایک دہائی
اور جس کے اشاروں پہ ہے رقصاں یہ خدائی
ہاتھوں پہ سجاۓ ہوۓ پھر رنگ حنائی
وہ بنت قمر بزم میں جب سامنے آئی
پھر جاں سے گزر جانے کی ہر دل میں ٹھنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

آنکھوں کے پری خانہ میں ہے ڈور گلابی
گردن جو صراحی ہے تو انداز شرابی.
اس چال سے ھے گردش دوراں میں خرابی
زاہد بھی پھرے چھوڑ کے ایمان شتابی
اللہ رے اس آنکھ میں کیا سحر فنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

شرمندہ یہاں آ کے ہوئی حور کی گردن
خم شرم کے مارے ملی تیمور کی گردن
پوشاک جو ململ کی, تو ھے نور کی گردن
کس درجہ تنی دیکھی بت مغرور کی گردن
یہ شکل زمانے میں جدا سب سے بنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

عشوے ہیں انوکھے, تو ہیں تیور بھی الگ کچھ
ھے اور حسینوں سے وہ خود سر بھی الگ کچھ
جوبن میں نہاں حسن کا خنجر بھی الگ کچھ
پہنےہوۓ رعنائی کا زیور بھی الگ کچھ
جو بوند پسینے کی ہے, ہیرے کی کنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی گلبدنی ھے

جلووں کا جہاں, نور کا گلزار ہے رنگت
کیا بزم تخیل پہ ضیا بار ہے رنگت
چالاک جوانی ہے, تو پرکار ہے رنگت
خنجر جو ادائیں ہیں تو تلوار ہے رنگت
آنکھوں میں نہاں جذبہء ناوک فگنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

غمزے سبھی پہلو میں لئے, قہر و بلا ہیں
انداز کہ جوں اہل سخن محو نوا ہیں
الفاظ کہ ساغر کا لئے کیف و مزا ہیں
ہر گام پہ فتنے سے وہ محشر کے بپا ہیں
اس پر ہے غرور ایسا کہ دنیا سے غنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

چاہے تو زمانے کو اشاروں پہ نچاۓ
وہ حسن مجسم کی کرامت جو دکھاۓ
انسان غم دھر کے جھگڑوں کو بھلاۓ
تسکین کی دولت کو وہ پاۓ کہ گنواۓ
الجھاؤ میں ہر ایک دل سوختنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

رعنائی کی دنیا کے وہ گلزار ہیں ابرو
قدرت نے بناۓ جو, وہ شہکار ہیں ابرو
معصوم ادائیں ہیں, تو ہشیار ہیں ابرو
کھینچے ہوۓ نخوت کی وہ تلوار ہیں ابرو
ایک ایک نظر جس کی کہ نیزے کی انی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

پھولوں کی جوانی بنا انگڑائی کا منظر
غمزے جو ہوۓ تیر, تو عشوے بنے خنجر
ہر نقش قدم خلد کی دنیا کا ہے رہبر
قدموں میں گرے آن کے سب دھر کے دلبر
عاشق اسی جلوے کامقدر کا دھنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

فرہاد فدا, قیس ہے انداز کے صدقے
دنیا کے پری زاد ہیں اس ناز کے صدقے
جو بلبل شیراز ہے آواز کے صدقے
تو خضر و مسیحا لب اعجاز کے صدقے
یہ جنبش لب ہی مری تقدیر بنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

ذرے انھی گلیوں کے زمانے کے ہیں پکھراج
ہو سلطنت حسن کا درکار جسے راج
جا کر ہو کسی ناز کے پیکر کا وہ محتاج
صد شکر کہ رومی ہے, ملا رنگ نصیر آج
 رگ رگ میں رچی عاشقی و برہمنی ھے
کیا گلبدنی, گلبدنی, گلبدنی ھے

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo