بس اِک نگاہ میں قصہ تمام ہوتا ہے تو کیا یہ واقعی اتنا سا کام ہوتا ہے کسی کے سرد رویے پہ خامشی کا لحاف یہ انتقام بھی کیا انتقام ہوتا ہے کبھی کبھی کوئی لقمہ، کہیں کہیں کوئی کام حلال ہوتے ہوئے بھی حرام ہوتا ہے فراق ِ یار سے کیا کیا امید تھی لیکن یہ رنج بھی کوئی دو چار گام ہوتا ہے اسیر، اسیر ہی ہوتا ہے قید کوئی بھی ہو کسی بھی شکل میں ہو، دام، دام ہوتا ہے شعور جس میں نہ ہو، اُس میں شاعری کیا ہو جو خوش بدن ہو، وہی خوش خرام ہوتا ہے وہ شخص یوں تو کسی کام کا نہیں _ لیکن سُنا ہے، اُس کے یہاں انتظام ہوتا ہے کبھی کبھی بڑی مشکل میں ڈال دیتے ہیں وہ جن کا دل میں بہت احترام ہوتا ہے کھڑا ہوں کتنے ہی رشتوں کو تھام کر جواد اور ایسے میں جو مرا انہدام ہوتا ہے جواد شیخ