Masoom Bastiyon Ko Samandar Nigal Gaya

 

 معصوم بستیوں کو سمندر نگل گیا

سیلاب کا بھی زور غریبوں پہ چل گیا

 


پانی نے گاؤں بھر کا صحن یکجا کر دیا


اک رات میں حویلی کا نقشہ بدل گیا

 


چاول ، اچار ، دالیں ، مربے ، اناج ، گڑ


برسوں کا رزق چٹکی بجاتے نکل گیا

 


مونجی ، کپاس ، گنا ، گھنے کھیت

 ،
سبزیاں پانی میں تیرتا ہوا رب کا فضل گیا

 


کینو ، کھجور ، موسی ، امردو ، آم ، سیب


پھل صبر کا ہی رہ گیا ،باقی تو پھل گیا

 


پانی کا رزق ہو گیا گڑیا کا کل جہیز افسوس

 ،
بے بسی کے سمندر میں ڈھل گیا

 


مٹی کے کچھ کھلونے تھے ،مٹی میں مل گئے


ممتا کی آرزو کا جنازہ نکل گیا

 


بن جاتے کاش جانور سارے ہی مچھلیاں


بے بس مویشی دیکھ کے پتھر پگھل گیا

 


ان کشتیوں کے نیچے کئی لوگ رہتے تھے


میں نے جو آج سوچا مرا دل دہل گیا

 


پرکھوں کی آج ہم کو بہت یاد آئی قیس


جن کی لحد بھی پانی کا ریلا نگل گیا

 

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai