اے میرے ہمنشیں چل کہیں اور چل، اِس چمن میں اب اپنا گُزارہ نہیں
بات ہوتی گُلوں تک تو سہہ لیتے ہم،اب تو کانٹوں پے بھی حق ہمارا نہیں
آج آئے ہو تُم،کل چلے جاؤ گے، یہ مُحبت کو اپنی گوارہ نہیں
عُمر بھر کا سہارا بنو تو بنو ، دو گھڑی کا سہارا سہارا نہیں
دی صدا دار پر اور کبھی طور پر کس جگہ مہں نے تُم کو پُکارا نہیں ہے
ٹھوکریں یوں کِھلانے سے کیا فائدہ صاف کہہ دو کہ ملنا گوارہ نہیں
گُلستاں کو لہو کی ضرورت پڑی سب سے پہلے ہی گردن ہماری کٹی
پھر بھی کہتے ہیں مجھ سے یہ اہل چمن، یہ چمن ہے ہمارا ،تُمہارا نہیں
ظالمو اپنی قسمت پہ نازاں نہ ہو، دَور بدلے گا یہ وقت کی بات ہے
وہ یقینا سُنے گا صدائیں میری، کیا تُمہارا خدا ہے ہمارا نہیں
اپنی زُلفوں کو رُخ سے ہٹا لیجیئے، میرا ذوقِ نظر آزما لیجئیے
آج گھر سے چلا ہوں یہی سوچ کر ، یا تو نظریں نہیں یا نظارا نہیں
جانے کس کی لگن کس کی دُھن میں مگن ہم کو جاتے ہوئے مُڑکے دیکھا نہیں
ہم نے آواز پر تُم کو آواز دی، پھر بھی کہتے ہیں ہم نے پُکارا نہیں
مضطر اکبر آبادی
Comments
Post a Comment