Aankh Jab Aaiene Se Hatayi

شاعرہ پروین شاکر

انتخاب اجڑا دل

آنکھ جب آئینے سے ہٹائی
شام سندر سے رادھا ملنے آئی

آۓ سپنوں میں گو کل کے راجہ
دینے سکھیوں کو آئی بدھائی

پریم جل خوب گاگر میں بھر لوں
آج بادل نے مایا لٹائی

کس کو پنگھٹ پے جانے کی ضد تھی
کس سے گاگر نے بنتی کرائی

اوک سے پانی بہنے لگا تو
پیاس گردھر کی کیسے بجھائی؟

اب تو جل کا ہی آنچل بنالوں
پیڑ پر کیوں چنریا سکھائی

اسی بالک سے نندیا ملے گی
جس نے ماتھے کی بندیا چرائی

رنگ ڈالی میری آتما تک
کیا منوہر کے من میں سمائی

میں نے سکھوں کو کب کچھ بتایا
بیری پائل نے ہی جا لگائی
گوپیوں سے بھی کھیلیں کنہیا
اور ہم سے بھی میٹھی لڑائی

کوئی خوشبو تو اچھی لگے گی
پھول بھر بھر کے آنچل میں لائی

شام میں توری گیاں چراؤں
مول لے لے تو میری کمائی

کرشن گوپال رستہ ہی بھولے
رادھا پیاری تو سدھ بھول آئی

سارے سر ایک مرلی کی دھن میں
ایسی رچنا بھلا کس نے گائی؟

کیسا بندھن بندھا شام مورے ؟
بات تیری سمجھ میں نہ آئی

ہاتھ پھولوں سے پہلے بنے تھے
یا کہ گجرے سے پھوٹی کلائی

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai