ابلیس کی فریاد
شاعر مرحوم طالب کہنڈیری
تونے جس وقت یہ انسان بنایا یارب
اس گھڑی مجھ کو تو یہ کام نہ بھایا یارب
اس لیے میں نے سر اپنا نہ جھکایارب
لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یارب
عقل مندی ہے اسی میں کہ میں توبہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں
ابتدا تھی بڑی نرم طبیت اس کی
قلب و جاں پاک تھے شفاف تھی سیرت اس کی
پھر بتدریج بدلنے لگی خصلت اس کی
اب تو خود مجھ پہ مسلط ہے شرارت اس کی
اس سے پہلے کہ میں اپنا تماشا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں
بھر دیا تونے بھلا کون سا فتنہ اس میں
پکتا رہتا ہے ہمیشہ کوئی لاوا اس میں
اپنا آتش کدہ زات ہی ٹھنڈا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں
اب تو یہ خون کے رشتوں سے اکڑ جاتا ہے
باپ سے بھائی سے بیٹے سے بھی لڑ جاتا ہے
جب کبھی طیش میں حد سے جو اکڑ جاتا ہے
خود میرے شر کا توازن بھی بگر جاتا ہے
اب تو لازم ہے کہ میں خود کو سیدہا کر لوں
سوچتا ہوں کہ میں انسان کو سجدہ کر لوں
میری نظر میں تو بس مٹی کا مادھو تھا بشر
میں سمجھا تھا اسے خود سے بہت ہی کم تر
مجھ پے پہلے نہ کھلے اس کی سیاسی جوہر
کان میرے بھی کترتا ہے لیڈر بن کر
شیطانیت چھوڑ کے میں بھی یہی دھندہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں
اب جھجکتا ہے نہ ڈرتا ہے نہ شرماتا ہے
نت نئی فتنہ گری روز یہ پھیلاتا ہے
اب یہ ظالم میرے بہکاوے میں کب آتا ہے
میں برا سوچتا رہتا ہوں یہ کر جاتا ہے
میں بھی اس کی مریدی کا ارادہ کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں
Comments
Post a Comment