چراغ طاقِ تمنّا میں رکھ کے بُھول گئی
دُعا وہ مانگ رہی تھی جو مستجاب نہ ہو
کبھی نہ تنگ ہو اُس پر زمین کا دامن
امیرِ شہر اگر آسماں جناب نہ ہو
ہمارے قحط بھی اور بارشیں بھی پوری ہُوئیں
ہمارے نام کا اب تو کوئی عذاب نہ ہو
سکوتِ خلق سمندر کی نیند ہوتا ہے
سکوں نہ جان بظاہر جو اضطراب نہ ہو
یہ چشمِ نم ہے اسے خشک دیکھ بھال کے کر
ہری بھری کوئی بستی ہی زیر آب نہ ہو
بس ایک نام کا تارا سدا چمکتا رہے
گلہ نہیں جو مقدّر میں ماہتاب نہ ہو
(پروین شاکر)
دُعا وہ مانگ رہی تھی جو مستجاب نہ ہو
کبھی نہ تنگ ہو اُس پر زمین کا دامن
امیرِ شہر اگر آسماں جناب نہ ہو
ہمارے قحط بھی اور بارشیں بھی پوری ہُوئیں
ہمارے نام کا اب تو کوئی عذاب نہ ہو
سکوتِ خلق سمندر کی نیند ہوتا ہے
سکوں نہ جان بظاہر جو اضطراب نہ ہو
یہ چشمِ نم ہے اسے خشک دیکھ بھال کے کر
ہری بھری کوئی بستی ہی زیر آب نہ ہو
بس ایک نام کا تارا سدا چمکتا رہے
گلہ نہیں جو مقدّر میں ماہتاب نہ ہو
(پروین شاکر)
No comments:
Post a Comment