Ilaj-e-Kawish-e-Gham Khaak Chara ju Karte Hazar Zakham Thy Kis Kis Jagah Rafoo Karte



ایک زمین میں 14 غزلیں پیشِ خدمت ہیں

01
جگر مرادآبادی

علاجِ کاوشِ غم خاک چارہ جُو کرتے
ہزار زخم تھے کس کس جگہ رفو کرتے

اشارہ خود جو نہ وہ بہرِ جستجو کرتے
مجال کیا تھی ہماری کہ آرزو کرتے

وہ ہم سے ملتے نہ ملتے یہ ان کی مرضی تھی
ہمارا کام یہی تھا کہ جستجو کرتے

بیان ہو نہ سکی ابتداء محبت کی
تمام عمر ہوئی شرحِ آرزو کرتے

  Roman Version

Ilaj-e-Kawish-e-Gham Khaak Chara ju Karte

Hazar Zakham Thy Kis Kis Jagah Rafoo Karte



Ishara Khud Jo Na Wo Behr-e-Justajo Karte

Majaal Kia Thi Hamari Keh Aarzoo Karte



Wo Hum Se Milte Na Milte Ye Unki Marzi Thi

Hamara Kaam Yahi Tha Keh Justajo Karte


Bayan Ho Na Saki Ibteda-e-Muhabbat Ki

Tamam Umar Hoi Sharh-e-Aarzoo Karte


Jigar Muradabadi

02
بہادر شاہ ظفر

طلب ہیں عشقِ بتاں میں جو آبرو کرتے
ظفر ہیں آگ سے پانی کی آرزو کرتے

اشارا اپنے جو ابرو کا وہ کبھو کرتے
ملک فلک سے پئے سجدہ سر فرو کرتے

نمازِ عشق میں جب ہم ہیں سر فرو کرتے
تو آبِ اشک سے سو بار ہیں وضو کرتے

نہ رُوئے یار سے ہوتی جو نسبتِ کعبہ
تمام عمر بھی عاشق ادھر نہ رُو کرتے

وہ سنتے حضرتِ ناصح کہ پھر نہ بات آتی
جو ترکِ عشق میں کچھ اور گفتگو کرتے

عجب نہیں ہے اگر رفتہ رفتہ گم ہوتے
جو کوئے یار میں ہم دل کی جستجو کرتے
03
خواجہ حیدر علی آتش

یہ آرزو تھی تجھے گُل کے رُوبرو کرتے
ہم اور بلبلِ بے تاب گفتگو کرتے

پیام بر نہ میّسر ہوا تو خوب ہوا
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

مری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے

ہمیشہ رنگ زمانہ بدلتا رہتا ہے
سفید رنگ ہیں آخر سیاہ مُو کرتے

لٹاتے دولتِ دنیا کو میکدے میں ہم
طلائی ساغر مے نقرئی سبُو کرتے

ہمیشہ میں نے گریباں کو چاک چاک کیا
تمام عمر رفو گر رہے رفو کرتے

جو دیکھتے تری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

یہ کعبہ سے نہیں بے وجہ نسبتِ رخ ِیار
یہ بے سبب نہیں مردے کو قبلہ رُو کرتے

سکھاتے نالۂ شب گیر کو در اندازی
غمِ فراق کا اس چرخ کو عدو کرتے

وہ جانِ جاں نہیں آتا تو موت ہی آتی
دل و جگر کو کہاں تک بھلا لہو کرتے

نہ پوچھ عالمِ برگشتہ طالعی آتش
برستی آگ، جو باراں کی آرزو کرتے

04
شیخ ذوق

مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے
کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے

مزے جو موت کے عاشق بیان کبھو کرتے
مسیح و خضر بھی مرنے کی آرزو کرتے

غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیونکر بے وضو کرتے

اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے

یقین ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے

سمجھیو دار رسن تا رو سوزن اے منصور
کہ چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے

نہ رہتی یوسف کنعاں کی خوبی بازار
مقابلہ میں جو ہم تجھ کو روبرو کرتے

چمن نہ تھا کہ زمانہ کے انقلاب سے ہم
تیمم آب سے اور خاک سے وضو کرتے

سراغ عمر گزشتہ کا لیجیے گر ذوق
تمام عمر گزر جائے جستجو کرتے
05
ریاض خیر آبادی

شرابِ ناب سے ساقی جو ہم وضو کرتے
حرم کے لوگ طوافِ خم و سبُو کرتے

کلیم کو نہ غش آتا نہ طُور ہی جلتا
دبی زبان سے اظہارِ آرزو کرتے

شراب پیتے ہی سجدے میں ان کو گرنا تھا
یہ شغل بیٹھ کے مے نوش قبلہ رُو کر کے

ہر ایک قطرے سے بہتی ریاض جوئے شراب
جو پی کے ہم سرِ زمزم کبھی وضو کرتے
 06
مصطفیٰ زیدی

"زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے"
وہ خود اگر کہیں مِلتا تو گفتگو کرتے

وہ زخم جِس کو کِیا نوکِ آفتاب سے چاک
اُسی کو سوزنِ مہتاب سے رفو کرتے

سوادِ دل میں لہو کا سراغ بھی نہ ملا
کسے امام بناتے کہاں وضو کرتے

حجاب اُٹھا دِیے خُود ہی نگار خانوں نے
ہمیں دِماغ کہاں تھا کہ آرزُو کرتے
07
سید عبدالحمید عدم

ہم اگر شرحِ آرزو کرتے
غنچہ و گل کو زرد رُو کرتے

سجدۂ ناگہاں کا تھا موقع
سجدہ کرتے کہ ہم وضو کرتے

داورِ حشر ہنس پڑا ورنہ
ہم کہاں قطعِ گفتگو کرتے

چاکِ دامن تو خیر سل جاتا
چاکِ ہستی کہاں رفو کرتے

میری غیبت سے کیا ملا ان کو
جو بھی کرنا تھا روبرو کرتے

کر دیا آرزو کو ترک عدم
کس لیے خونِ آرزو کرتے
08
احمد فراز

کسی طرح تو بیاں حرفِ آرزو کرتے
جو لب سِلے تھے تو آنکھوں سے گفتگو کرتے

بس اک نعرۂ مستاں دریدہ پیرہنو
کہاں کے طوق و سلاسل بس ایک ہُو کرتے

کبھی تو ہم سے بھی اے ساکنانِ شہرِ خیال
تھکے تھکے ہوئے لہجے میں گفتگو کرتے

گُلوں سے جسم تھے شاخِ صلیب پر لرزاں
تو کس نظر سے تماشائے رنگ و بُو کرتے

بہت دنوں سے ہے بے آب چشمِ خوں بستہ
وگرنہ ہم بھی چراغاں کنارِ جُو کرتے

یہ قرب مرگِ وفا ہے اگر خبر ہوتی
تو ہم بھی تجھ سے بچھڑنے کی آرزو کرتے

چمن پرست نہ ہوتے تو اے نسیمِ بہار
مثالِ برگِ خزاں تیری جستجو کرتے

ہزار کوس پہ تُو اور یہ شام غربت کی
عجیب حال تھا پر کس سے گفتگو کرتے

فراز مصرعۂ آتش پہ کیا غزل کہتے
زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے

09
اختر شیرانی

نہ بُھول کر بھی تمنائے رنگ و بُو کرتے
چمن کے پُھول اگر تیری آرزو کرتے

جنابِ شیخ پُہنچ جاتے، حوضِ کوثر تک
اگر شراب سے مے خانے میں وضو کرتے

مُسرت، آہ تُو بستی ہے کِن ستاروں میں
زمیں پہ، عُمر ہوئی تیری جُستجو کرتے

ایاغ بادہ میں آ کر وہ خود چھلک پڑتا
گر اُس کے مست ذرا اور ہاؤ ہُو کرتے

اُنہیں مفر نہ تھا اِقرارِ عشق سے لیکن
حیا کو ضد تھی کہ وہ پاسِ آبرو کرتے

پُکار اُٹھتا وہ آ کر دلوں کی دھڑکن میں
ہم اپنے سینے میں گر اُس کی جُستجو کرتے

غمِ زمانہ نے مجبُور کر دیا، ورنہ
یہ آرزو تھی کہ بس تیری آرزو کرتے

گراں تھا ساقیِ دوراں پر ایک ساغر بھی
تو کِس اُمید پہ ہم خواہشِ سبُو کرتے
10
کرم حیدری

زمانہ گزرا ہے دل میں یہ آرزو کرتے
کہ تیرے اشکِ ندامت سے ہم وضو کرتے

لہو سفید ہوا تھا سب اہلِ دنیا کا
ہم اپنے خون سے کس کس کو سرخرو کرتے

یہی تو ایک تمنا رہی دوانوں کی
کبھی کبھی تیرے کوچے میں ہاؤ ہو کرتے

اب اِس کے بعد خدا جانے حال کیا ہوگا
کہ ہم تو جاں سے گئے حفظِ آبرو کرتے

بہت ہی سادہ سی اک آرزو ہماری تھی
زمانے گزرے مگر شرحِ آرزو کرتے

یہ صبح و شام سیاست کا رونا کیسا ہے
کبھی تو ہم سے محبت کی گفتگو کرتے

ہمیں تو پیرِ مغاں جامِ صبر دے کے گیا
حریف پھرتے ہیں اب تک سبُو سبُو کرتے

کرم جو دیکھا تو تھے مارِ آستیں اپنے
کٹی تھی عمر جنہیں زینتِ گلو کرتے

11
پنڈت رتن پنڈوری

جدا وہ ہوتے تو ہم ان کی جستجو کرتے
الگ نہیں ہیں تو پھر کس کی آرزو کرتے

ملا نہ ہم کو کبھی عرضِ حال کا موقع
زباں نہ چلتی تو آنکھوں سے گفتگو کرتے

اگر یہ جانتے ہم بھی انہیں کی صورت ہیں
کمالِ شوق سے اپنی ہی آرزو کرتے

دلِ حزیں کے مکیں تو اگر صدا دیتا
تری تلاش کبھی ہم نہ کُو بہ کُو کرتے

کمال جوشِ طلب کا یہی تقاضا ہے
ہمیں وہ ڈھونڈتے ہم ان کی جستجو کرتے

نمازِ عشق تمہاری قبول ہو جاتی
اگر شراب سے تم اے رتن وضو کرتے

 12
شعور بلگرامی

جو شانہ گیسوئے جاناں میں ہم کبھو کرتے
تری بھی اے دل گم گشتہ آرزو کرتے

ہم دل پہ یہ آفت نہ آتی اک سر مُو
پسند ہم جو نہ وہ زلفِ مشکبو کرتے

سیاہ بختِ ازل ہوں کہاں ہیں ایسے نصیب
کہ قتل کر کے مجھے آپ سرخ رُو کرتے

یہ آرزو رہی دل میں ہمارے تا دمِ نزع
جو آتا یار تو کچھ اس سے گفتگو کرتے

13
عبداللہ ناظر

بسوزِ زخمِ جگر کیسے ہاؤ ہو کرتے
اگر نہ عشق میں ہم ترکِ آرزو کرتے

تمہاری آنکھوں نے بہکا دیا ہمیں ورنہ
کبھی نہ جشنِ شبِ بادہ و سبو کرتے

نہ جانے کتنی نگاہوں سے گر گئے ہوتے
بیاں جو حشر میں ہم وجہِ آرزو کرتے

غرور سے نہ اٹھا اپنا سر وگرنہ ہم
خود اپنے ہاتھ سے قطعِ رگِ گلو کرتے

وجود ہوتا نہ اے کاش اپنا دنیا میں
نہ صرفِ شرحِ محبت کبھی لہو کرتے

نہ اٹھتا سر سے اگر سایۂ بہار تو ہم
چمن کے پھولوں سے رنگین گفتگو کرتے

ہوا نہ جن سے کبھی میری چشمِ تر کا علاج
وہ میرے چاک گریباں کو کیا رفو کرتے

غبارِ رنج و الم ہر طرف تھا غربت میں
تلاشِ یار بھلا کیوں نہ کو بکو کرتے

کسی کے سامنے کیوں ذکرِ اختلافِ نظر
جوبات کرنی تھی بے لاگ روبرو کرتے

جنازہ اٹھ گیا کیوں اعتبارِ ناظر کا
جو دوستوں نے کیا کاش وہ عدو کرتے

14
میرزا یاس یگانہ چنگیزی

مزا گناہ کا جب تھا کہ باوضو کرتے
بتوں کو سجدہ بھی کرتے تو قبلہ رُو کرتے

کبھی نہ پرورشِ نخلِ آرزو کرتے
نمو سے پہلے جو اندیشۂ نمو کرتے

سنیں نہ دل سے تو پھر کیا پڑی تھی خاروں کو
کہ گل کو محرمِ انجامِ رنگ و بو کرتے

گناہ تھا بھی تو کیسا گناہِ بے لذت
قفس میں بیٹھ کے کیا یادِ رنگ و بو کرتے

بہانہ چاہتی تھی موت بس نہ تھا اپنا
کہ میزبانیِ مہمانِ حیلہ جُو کرتے

دلیلِ راہ دلِ شب چراغ تھا تنہا
بلند و پست میں گزری ہے جستجو کرتے

ازل سے جو کششِ مرکزی کے تھے پابند
ہوا کی طرح وہ کیا سیرِ چار سو کرتے

فلک نے بھول بھلیاں میں ڈال رکھا تھا
ہم ان کو ڈھونڈتے یا اپنی جستجو کرتے

اسیرِ حال نہ مُردوں میں ہیں نہ زندوں میں
زبان کٹتی ہے آپس میں گفتگو کرتے

پناہ ملتی نہ امیدِ بے وفا کو کہیں
ہوس نصیب اگر ترکِ آرزو کرتے

ازالہ دل کو نجاست کا اور کیا ہوتا
جلا کے خاک نہ کرتے تو کیا لہو کرتے

مزارِ یاس پہ کرتے ہیں شکر کے سجدے
دعاے خیر تو کیا اہلِ لکھنئو کرتے

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai