Khuwahish Koi Ubhri Hai Arman Tou Nahi,Ghabra Gaya Hon Toda Preshan Tou Nahi
خواہش کوئی ابھری
ہے ارمان تو نہیں
گھبرا گیا ہوں تھوڑا
پریشان تو نہیں
کیسے کہوں وہ میرا
طرف دار ہو گیا
تسلیاں ہی بهیجی
ہیں زبان تو نہیں
الفت کے نام پر بدن
میں بھیڑ کس لیے
اک آدھ ہو تو ٹھیک
خاندان تو نہیں
گناہ کے معاملات میں
بس اتنی احتیاط
خودی سے پوچھ لیتا
ہوں رمضان تو نہیں
ابھی تو اس جنون
کا گلا نہ کاٹیے
ابھی تو لڑکپن میں
ہے جوان تو نہیں
اک یاد ہے جو لازمی
جزو_بدن ہے
پہلو سے لگی رہتی
ہے کرپان تو نہیں
چنبیلیء وصال پہ
دوری کے زہر کی
کمی ضرور لگتی
ہے فقدان تو نہیں
ہرچند حروف بیجتا
ہوں اپنے ذہن میں
ہر فصل بونے والا
پر کسان تو نہیں
کوئی بھی زخم ہو
رزب دل_گداز پر
ہلکا سا داغ لگتا
ہے نشان تو نہیں
(رزب تبریز)
Comments
Post a Comment