Aur Ab Demagh Nishani Na Dil Hawala Mera


دو غزلہ

اور اب دماغ نشانی نہ دل حوالہ مرا
بدلتے وقت نے ماضی ہی مار ڈالا مرا
نبھا سکا نہ تعلق تو معذرت کیسی
پڑا تھا پہلی دفعہ زندگی سے پالا مرا
میں روز اس میں نئی دھوپ بھر کے پیتا ہوں
پگھلتا جاتا ہے یہ برف کا پیالہ مرا
دراز ہوگئی جب شب ہزار راتوں تک
کسی نے کھینچ کے مغرب سے دن نکالا مرا
مئے کہن ہے مگر تازگی تو چکھ اس کی
نیا نکور ہے لہجہ ہزار سالہ مرا
میں روز رات کو دل میں قیام کرتا ہوں
شبِ سیاہ میں کھلتا ہے دشت ِ لالہ مرا

مہ  تمام ذرا دیکھ تو اجالا مرا
کسی کی دین ہے یہ ہفت رنگ ہالہ مرا
میں طفل تھا سو مجھے بار تھی محبت بھی
کسی نے پھر بڑے جتنوں سے عشق پالا مرا
خدا کو مان ! میں خود کو گنوا کے بیٹھا ہوں
ترے وصال سے ہوتا ہے کب ازالہ مرا
ہر اک کے واسطے ہوتا تو ہے کوئی نہ کوئی
کہیں تو ہوگا کوئی شخص لامحالہ مرا
میں خود نہیں ہوں یقیناً تو اور کون ہے وہ
سعود ہے تو کوئی پیار کرنے والا مرا
سعود عثمانی

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai