Titlian Jugno Sabhi Hongy Magar Dekhy Ga Kon
احمد فراز
اب کے رت بدلی تو خوشبو کا سفر دیکھے گا کون
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون
زخم جتنے بھی تھے سب منسوب قاتل سے ہوئے
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
تیرے ہاتھوں کے نشاں اے چارہ گر دیکھے گا کون
وہ ہوس ہو یا وفا ہو، بات محرومی کی ہے
لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون
ہم چراغ شب ہی جب ٹہرے تو پھر کیا سوچنا
رات تھی کس کا مقدر، اور سحر دیکھے گا کون
ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون
نوشی گیلانی
تتلیاں، جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون
ہم سجا بھی لیں اگر دیوارودر دیکھے گا کون
اب تو ہم ہیں جاگنے والے تری خاطر یہاں
ہم نہ ہوں گے تو ترے شام وسحر دیکھے گا کون
سب نے اپنی اپنی آنکھوں پر نقابیں ڈال لیں
جو لکھا ھے شہر کی دیوار پر دیکھے گا کون
بے ستارہ زندگی کے گھر میں روشن ہے کہیں
اک کرن تیرے خیالوں کی، مگر دیکھے گا کون
معراج فیض آبادی
بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون
لوگ تیرے جرم دیکھیں گے سبب دیکھے گا کون
ہاتھ میں سونے کا کاسہ لے کے آئے ہیں فقیر
اس نمائش میں ترا دست طلب دیکھے گا کون
لا اٹھا تیشہ چٹانوں سے کوئی چشمہ نکال
سب یہاں پیاسے ہیں تیرے خشک لب دیکھے گا کون
دوستوں کی بےغرض ہمدردیاں تھک جائیں گی
جسم پر اتنی خراشیں ہیں کہ سب دیکھے گا کون
شاعری میں میر و غالب کے زمانے اب کہاں
شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ادب دیکھے گا کون
عمران ساغر
مسئلوں سے سب تو ہیں زیرِ اثر دیکھے گا کون
سب کو اپنا غم ہے میری چشمِ تر دیکھے گا کون
خواہشیں انساں کی اک مرکز پہ رہتی ہی نہیں
ایک ہی چہرے کو ساغر عمر بھر دیکھے گا کون
لوگ تو پھل پھول دیکھیں گے شجر دیکھے گا کون
ہم چراغ شب ہی جب ٹہرے تو پھر کیا سوچنا
رات تھی کس کا مقدر، اور سحر دیکھے گا کون
ہر کوئی اپنی ہوا میں مست پھرتا ہے فراز
شہر نا پرساں میں تیری چشم تر دیکھے گا کون
نوشی گیلانی
تتلیاں، جگنو سبھی ہوں گے مگر دیکھے گا کون
ہم سجا بھی لیں اگر دیوارودر دیکھے گا کون
اب تو ہم ہیں جاگنے والے تری خاطر یہاں
ہم نہ ہوں گے تو ترے شام وسحر دیکھے گا کون
سب نے اپنی اپنی آنکھوں پر نقابیں ڈال لیں
جو لکھا ھے شہر کی دیوار پر دیکھے گا کون
بے ستارہ زندگی کے گھر میں روشن ہے کہیں
اک کرن تیرے خیالوں کی، مگر دیکھے گا کون
معراج فیض آبادی
بکھرے بکھرے سہمے سہمے روز و شب دیکھے گا کون
لوگ تیرے جرم دیکھیں گے سبب دیکھے گا کون
ہاتھ میں سونے کا کاسہ لے کے آئے ہیں فقیر
اس نمائش میں ترا دست طلب دیکھے گا کون
لا اٹھا تیشہ چٹانوں سے کوئی چشمہ نکال
سب یہاں پیاسے ہیں تیرے خشک لب دیکھے گا کون
دوستوں کی بےغرض ہمدردیاں تھک جائیں گی
جسم پر اتنی خراشیں ہیں کہ سب دیکھے گا کون
شاعری میں میر و غالب کے زمانے اب کہاں
شہرتیں جب اتنی سستی ہوں ادب دیکھے گا کون
عمران ساغر
مسئلوں سے سب تو ہیں زیرِ اثر دیکھے گا کون
سب کو اپنا غم ہے میری چشمِ تر دیکھے گا کون
خواہشیں انساں کی اک مرکز پہ رہتی ہی نہیں
ایک ہی چہرے کو ساغر عمر بھر دیکھے گا کون
Comments
Post a Comment