غیر کے چاک گریباں کو بھی ٹانکا کیجے
اور کچھ اپنے گریباں میں بھی جھانکا کیجے
بن کے منصف جو کٹہروں میں بلائیں سب کو
اس ترازو میں ذرا خود کو بھی جانچا کیجے
خود میں دعویٰ جو بڑائی کا لئے پھرتے ہیں
یہ بھی فتنہ ہے ذرا اس کو بھی چلتا کیجے
سب کو دیتے ہیں سبق آپ بھلے کاموں کا
پہلے اس فن میں ذرا خود کو تو یکتا کیجے
راستی پر ہیں فقط آپ غلط ہیں سارے
اس تعصب میں حقیقت کو نہ دھندلا کیجے
ہے توقع کہ محبت سے سبھی پیش آئیں
خود محبت سے کوئی ایک تو اپنا کیجے
آپ گر اپنے لئے ریشم و اطلس چاہیں
سوئے فٹ پاتھ پہ جو اسکو بھی ڈھانپا کیجے
اور کے نقص پہ جو اُگلے زباں تیری زہر
اپنے حصے کا ذرا زہر بھی پھانکا کیجے
برہمی ٹھیک ہے جاہل کی جہالت پہ مگر
علم حاضر ہے ذرا خود کو تو بینا کیجے
کاہے ابرک ہے گلہ رات کی تاریکی کا
آپ کا کام ہے لفظوں سے اجالا کیجے
اتباف ابرک
No comments:
Post a Comment