Socha Ye Hamesha Keh Na Sochon Ga Usay Ab,Par Kia Karon Zalim Jo Na Many Ye December
سوچا یہ ہمیشہ کہ نہ سوچوں گا اُسے اب
پر کیا کروں ظالم جو نہ مانے یہ دسمبر
جو بھولنے بیٹھوں تو اسے بھول نہ پاؤں
رگ رگ میں یوں اترا ہے دسمبر ہی دسمبر
ان جاگتی راتوں کو یہ کہتا ہے دسمبر
ٹوٹے ہوئے خوابوں کی ہے تعبیر دسمبر
وآپس مجھے لے جائے اُسی خواب جہاں میں
بے درد نہ ہوتے تھے جہاں یوں یہ دسمبر
ہر بات کرے ایسے کہ گزری ہو اسی پر
مجھ سے ہی گلے ایسے کہ جیسے ہوں دسمبر
کرتا ہے بیاں ایسے یہ آہوں کی زباں سے
ہر آنکھ میں بھر آئے وہی شاد دسمبر
کہتا ہے کہ ہاتھوں میں کبھی ہاتھ تھا اس کا
میں یاد کروں میں تھا یا وہ بھی تھا دسمبر
شاید یہ بھی چاہے تھا کبھی ٹوٹ کے تم کو
یونہی تو نہیں رنج میں ڈوبا یہ دسمبر
اب تم بھی چلے آو کہ آباد یہ دل ہو
آتے نہیں جب تم تو، ہو برباد دسمبر
جاتے ہوئے مڑ مڑ کے کرے وعدہ دسمبر
وہ آئے نہ آئے یونہی آئے گا دسمبر
پوچھوں میں ہر اک بار بتا مجھکو دسمبر
اس عمر میں کتنے ہیں ابھی اور دسمبر
جب لاگے تمہیں بھیگا دسمبر کا مہینہ
ناں دھند سمجھ لینا کہ ہے روتا دسمبر
شکوہ ہے ,شکایت ہے اگر سمجھے دسمبر
جائے جو کوئی چھوڑ تو آئے نہ دسمبر
اتباف ابرک
Comments
Post a Comment