Uth Kar Tere Dar Se Kahein Jane Ke Nahi Hum
ہم قافیہ ، ایک ردیف ، ایک زمین اور کئ شاعر
اٹھ کر ترے در سے کہیں جانے کے نہیں ہم
محتاج کسی اور ٹھکانے کے نہیں ہم
ٹھہرا ہے عیادت پہ سفر ملک عدم کا
آنے کے نہیں آپ تو جانے کے نہیں ہم
جو تم نے لگائی ہے وہ ہے قدر کے قابل
اس آگ کو اشکوں سے بجھانے کے نہیں ہم
لو آؤ سنو ہم سے غم ہجر کی حالت
گزری ہے جو ہم پر وہ چھپانے کے نہیں ہم
احوال شب غم پہ رشید آج وہ بولے
قائل ترے اس جھوٹے فسانے کے نہیں ہم
رشید رامپوری
*************************
دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم
آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی
ویسے تو کسی ٹھور ٹھکانے کے نہیں ہم
اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک
اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں ہم
اک درد کی دولت ہے جسے بانٹے پھریے
مالک بھی کسی اور خزانے کے نہیں ہم
تو نے تو ابھی کھیل کا آغاز کیا ہے
کردار ابھی تیرے فسانے کے نہیں ہم
اے خالق گل چاہیے کچھ اور بھی وسعت
معمورہء عالم میں سمانے کے نہیں ہم
کہتے چلے جاتے ہیں کہانی پہ کہانی
اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم
اس شہر کے اندر ہیں فصیلیں ہی فصیلیں
اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم
شہزاد دل و جاں پہ جو گذری ہے قیامت
وہ زخم کسی کو بھی دکھانے کے نہیں ہم
شہزاد احمد
***************************
جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
اٹھ کر ترے دروازے سے جانے کے نہیں ہم
جتنا کہ یہ دنیا میں ہمیں خوار رکھے ہے
اتنے تو گنہ گار زمانے کے نہیں ہم
ہو جاویں گے پامال گزر جاویں گے جی سے
پر سر ترے قدموں سے اٹھانے کے نہیں ہم
آنے دو اسے جس کے لیے چاک کیا ہے
ناصح سے گریباں کو سلانے کے نہیں ہم
جب تک کہ نہ چھڑکے گا گلاب آپ وہ آ کر
اس غش سے کبھی ہوش میں آنے کے نہیں ہم
جاویں گے صبا باغ میں گلگشت چمن کو
پر تیری طرح خاک اڑانے کے نہیں ہم
اے مصحفی خوش ہونے کا نہیں ہم سے وہ جب تک
سر کاٹ کے نذر اس کو بھجانے کے نہیں ہم
مصحفی غلام ہمدانی
****************************
کب تک کوئی طوفان اُٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم
جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم
اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض ، بتانے کے نہیں ہم
لازم نہیں افسانہ حسیں موڑ پہ چھوڑیں
بنتی ہو مگر بات بنانے کے نہیں ہم
بے نُور اُجالے ہوں تو پھر دل ہی جلیں گے
یہ آخری شمعیں تو بجھانے کے نہیں ہم
یہ گھر تو نہیں ہے کہ جو گھبرائیں نکل جائیں
صحرا ہے سو اب یاں سے تو جانے کے نہیں ہم
یہ حسرتِ نم ، اشکِ ندامت ہی نہ کہلائے
روئیں گے مگر اشک بہانے کے نہیں ہم
معلوم ہے خمیازۂ حسرت ہمیں یعنی
کھو بیٹھیں گے خود کو تمہیں پانے کے نہیں ہم
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
محتاج کسی اور ٹھکانے کے نہیں ہم
ٹھہرا ہے عیادت پہ سفر ملک عدم کا
آنے کے نہیں آپ تو جانے کے نہیں ہم
جو تم نے لگائی ہے وہ ہے قدر کے قابل
اس آگ کو اشکوں سے بجھانے کے نہیں ہم
لو آؤ سنو ہم سے غم ہجر کی حالت
گزری ہے جو ہم پر وہ چھپانے کے نہیں ہم
احوال شب غم پہ رشید آج وہ بولے
قائل ترے اس جھوٹے فسانے کے نہیں ہم
رشید رامپوری
*************************
دنیا کی طرف لوٹ کے آنے کے نہیں ہم
سچ بات یہ ہے تیرے زمانے کے نہیں ہم
آوارہ مزاجی بھی طبیعت نہیں اپنی
ویسے تو کسی ٹھور ٹھکانے کے نہیں ہم
اب دیکھتے ہیں تیرگی جاتی ہے کہاں تک
اے تیرہ شبی شمع جلانے کے نہیں ہم
اک درد کی دولت ہے جسے بانٹے پھریے
مالک بھی کسی اور خزانے کے نہیں ہم
تو نے تو ابھی کھیل کا آغاز کیا ہے
کردار ابھی تیرے فسانے کے نہیں ہم
اے خالق گل چاہیے کچھ اور بھی وسعت
معمورہء عالم میں سمانے کے نہیں ہم
کہتے چلے جاتے ہیں کہانی پہ کہانی
اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم
اس شہر کے اندر ہیں فصیلیں ہی فصیلیں
اس قید سے باہر کبھی جانے کے نہیں ہم
شہزاد دل و جاں پہ جو گذری ہے قیامت
وہ زخم کسی کو بھی دکھانے کے نہیں ہم
شہزاد احمد
***************************
جب تک کہ تری گالیاں کھانے کے نہیں ہم
اٹھ کر ترے دروازے سے جانے کے نہیں ہم
جتنا کہ یہ دنیا میں ہمیں خوار رکھے ہے
اتنے تو گنہ گار زمانے کے نہیں ہم
ہو جاویں گے پامال گزر جاویں گے جی سے
پر سر ترے قدموں سے اٹھانے کے نہیں ہم
آنے دو اسے جس کے لیے چاک کیا ہے
ناصح سے گریباں کو سلانے کے نہیں ہم
جب تک کہ نہ چھڑکے گا گلاب آپ وہ آ کر
اس غش سے کبھی ہوش میں آنے کے نہیں ہم
جاویں گے صبا باغ میں گلگشت چمن کو
پر تیری طرح خاک اڑانے کے نہیں ہم
اے مصحفی خوش ہونے کا نہیں ہم سے وہ جب تک
سر کاٹ کے نذر اس کو بھجانے کے نہیں ہم
مصحفی غلام ہمدانی
****************************
کب تک کوئی طوفان اُٹھانے کے نہیں ہم
بے صرفہ تو اب جان سے جانے کے نہیں ہم
تعبیر گرو، مہلتِ خمیازہ تو دے دو
ہر روز نیا خواب سنانے کے نہیں ہم
جب گفتگو اک عہدِ گراں گوش سے ٹھہرے
کر گزریں گے کچھ، شور مچانے کے نہیں ہم
اب یوں ہے کہ ہم خود سے ہوئے برسرِ پیکار
مجبوری ہے یا فرض ، بتانے کے نہیں ہم
لازم نہیں افسانہ حسیں موڑ پہ چھوڑیں
بنتی ہو مگر بات بنانے کے نہیں ہم
بے نُور اُجالے ہوں تو پھر دل ہی جلیں گے
یہ آخری شمعیں تو بجھانے کے نہیں ہم
یہ گھر تو نہیں ہے کہ جو گھبرائیں نکل جائیں
صحرا ہے سو اب یاں سے تو جانے کے نہیں ہم
یہ حسرتِ نم ، اشکِ ندامت ہی نہ کہلائے
روئیں گے مگر اشک بہانے کے نہیں ہم
معلوم ہے خمیازۂ حسرت ہمیں یعنی
کھو بیٹھیں گے خود کو تمہیں پانے کے نہیں ہم
ڈاکٹر پیرزادہ قاسم
Comments
Post a Comment