Aayan Hai,Ye Nihan Hai Be-Kran Hai,Muhabbat Naam Jis Ka Javedaan Hai
عیاں ہے، یہ نہاں ہے بے کراں ہے
محبت نام جس کا جاوداں ہے
کہاں بچ پایا ہے کوئی مسافر
محبت آج بھی اندھا کنواں ہے
یہ ایسی آگ جو دِکھتی نہیں ہے
مگر چاروں طرف گہرا دھواں ہے
یہ وہ کشتی جو خشکی پر ہے مردہ
بھرے پانی میں دیکھو کیا رواں ہے
کسی طوفاں کا یہ کیا خوف رکھے
محبت اپنے اندر بادباں ہے
یہ بچھڑے تو ملے صحرا کا موسم
اگر لوٹے تو پھر جل تھل سماں ہے
اندھیری رات میں یہ دیپ روشن
کڑی دھوپوں میں گویا سائباں ہے
یہ دنیا نقد سودے میں ہے دھوکہ
ملے بِن مول سب یہ وہ دکاں ہے
کہاں ہے,کب ہے,کیسے کیوں کدھر ہے
کوئی کب اس کا اتنا رازداں ہے
مخاطب ہے جو بس اہلِ نظر سے
یہ وہ منظر حسیں, دلکش بیاں ہے
نہیں شامل ہے جس میں یہ محبت
بھلا بولو وہ کیسا کارواں ہے
جو یہ ہے تو مکمل داستاں ہے
وگرنہ زندگی اک امتحاں ہے
یہ ہے تو رابطہ لوگوں میں قائم
نہیں تو ایک سرحد درمیاں ہے
گلہ اس سے کہ یہ سنتی نہیں ہے
مگر سچ ہے محبت بے زباں ہے
کہاں نقصان کر پائے کسی کا
جو الٹا تیر رکھے وہ کماں ہے
نہ جانے کون جنجھٹ ہے سمجھتا
ہمارے واسطے یہ ارمغاں ہے
جو حاصل یہ نہیں تو درحقیقت
جو حاصل بھی ہے سب وہ رائیگاں ہے
ہاں چاروں اور دشمن بستیاں ہیں
محبت ایک بس ذاتی مکاں ہے
اتباف ابرک
Comments
Post a Comment