Tum To Meri Jaan-e-Jaan Thein Farha,Kon Thein Tum Aur Kahan Thein Farha


فارہہ

تم جو میری جانِ جاں تھیں فارہہ

کون تھیں تم اور کہاں تھیں فارہہ

ہوں میں اب اور اک جہانِ نا شناس

تم ہی بس میرا جہاں تھیں فارہہ

کیا ہوا وہ رودِ خوابِ جاں کہ تم

جس میں دست و پا زناں تھیں فارہہ

میں غریقِ رودِ زہرِ ناب ہوں
تم جو تھیں نوشیں زباں تھیں فارہہ

اور کہہ سکتا ہوں کیا میں یعنی میں

تم زمین و آسماں تھیں فارہہ

اب تو ہوں میں اک خزاں اندر خزاں

تم بہارِ بے خزاں تھیں فارہہ

اب میں ہوں خانہ بدوش اور تم مرا

اک مکانِ جاوداں تھیں فارہہ

میں تھا میرِ داستاں یعنی کہ تم

داستانِ داستاں تھیں فارہہ

کیا بھلا میرا وجود اور کیا عدم

تم، نہیں، تھیں اور، ہاں، تھیں فارہہ

ہاں میں شاید تھا بہت نا مہرباں

تم بَلا کی مہرباں تھیں فارہہ

تھی وہ اپنی درمیانی بھی عجیب

یعنی تم نا درمیاں تھیں فارہہ

کیوں نہ تھوکا جائے اب خونِ جگر

یعنی تم میرا زیاں تھیں فارہہ

ہائے وہ بادِ برینِ سبز کوک

پر تم اک رودِ دُخاں تھیں فارہہ

کیسی خوش بینی خوش اُمیدی کہاں

تم تو حشر بے اماں تھیں فارہہ

کچھ نہیں تھیں تم نہیں تھیں کچھ بھی تم

پر مرا ہندوستاں تھیں فارہہ

مجھ تک آئیں جانے کتنی کسبیاں

تم ہی شہ بانوئے جاں تھیں فارہہ

سب کنیزیں تھیں تمہاری جانِ من

تم مری نورِ جہاں تھیں فارہہ

جو بدل ٹھہریں تمہارا وہ سبھی

کتنی گھٹیا لڑکیاں تھیں فارہہ

میں جو ہوں اب میں ہوں بے نام و نشاں

تم مرا نام و نشاں تھیں فارہہ

تم نوائے جاودانِ جاں ہو جاں

تم نوائے جاوداں تھیں فارہہ

ایک دل تھا جو کہ تھا اور ایک جاں

اور تم ان کے درمیاں تھیں فارہہ

میں تمہیں میں ٹھوکریں کھاتا رہا

کیوں تم اتنی مہرباں تھیں فارہہ

اک جہانِ بے جہانِ خواب تھا

اور تم اس کا سماں تھیں فارہہ

میں نے تم کو اپنے دل کا گھر دیا

تم جو تھیں بے خانماں تھیں فارہہ

شکوہ ہا شوریدگی ہا شور ہا

تم بہت کمتر گماں تھیں فارہہ

اب مجھے آزاد کر دو چھوڑ دو

جان و دل کے سارے رشتے توڑ دو

جب کوئی منزل نہیں میری تو پھر

رُخ کسی جانب بھی میرا موڑ دو

کچھ نہیں تھا کیا حقیقت کا خیال

صرف افسانے تھے ممکن اور محال

اک عبث میں خونِ دل تھوکا گیا

کوئی بھی حالت نہیں تھی اور حال

اک گمانِ بے گماں ہے زندگی

داستاں کی داستاں ہے زندگی

دَم بہ دَم ہے اک فراقِ جاوداں

اک جبیں بے آستاں ہے زندگی

کہکشاں بر کہکشاں ہے اک گریز

بودِ بے سود و زیاں ہے زندگی

ہے مری تیرہ نگاہی اک تلاش

تم کہاں ہو اور کہاں ہے زندگی

دل تھا درہم اور برہم رائیگاں

تھے تمہاری زُلف کے خم رائیگاں

اپنی ساری آرزوئیں تھیں فریب

اپنے خوابوں کا تھا عالم رائیگاں

جون شاید کچھ نہیں کچھ بھی نہیں

ہے دوام اک وہم اور دم رائیگاں

زندگی بس رائیگانی ہی تو ہے

میں بہت خوش ہوں کہ تھے ہم رایگاں

ہم رَسا اور نارسا کچھ بھی نہ تھے

یعنی جون و فارہہ کچھ بھی نہ تھے

جون ایلیا

Comments

Popular posts from this blog

Mujh Se Meri Umar Ka Khasara Poochtay Hein Ya'ani Log Mujh Se Tumhara Poochtay Hein

Ik Main Pheeki Chaah Naein Peenda Doja Thandi Chaah Naein Peenda

Hum Ne Tujhe Jana Hai Faqat Teri Aata Se Woh Hamdia Kalam Jis Ki Aawaz Aur Kalam Ko Allama Iqbal Se Mansoob Kia Jata Hai