Ik Husn Ki Devi Se Mujhe Piar Hoa Tha,Dil Us Ki Muhabbat Mein Giraftaar Hoa Tha
مشیر کاظمی
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اُس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
وہ روپ کہ جس روپ سے کلیاں بھی لجائیں
وہ زلف کہ جس زلف سے شرمائیں گھٹائیں
میخانے نگاہوں کے، اداؤں کے ترانے
دے ڈالے مجھے اُس نے محبت کے خزانے
ہاں ایسی ہی اک رات تھی، ایسا ہی سماں تھا
یہ چاند بھی پورا تھا، زمانہ بھی جواں تھا
اک پیڑ کے سائے میں جب اقرار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
کشمیر کی وادی کے وہ پُر کیف نظارے
لمحات محبت کے جہاں ہم نے گزارے
انگڑائیاں لے کر مری بانہوں کے سہارے
گلنار نظر آتے تھے وہ شرم کے مارے
یک طرفہ تو نہ تھے حُسن و محبت کے اشارے
اُس نے بھی کئی بار مرے بال سنوارے
احساس کا، جذبات کا اقرار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
کچھ روز کٹے یوں بھی برا وقت جب آیا
اُس حُسن کی دیوی نے بھی نظثروں کو پھرایا
غربت نے زمانے کی نگاہوں سے گرایا
آنچل مرے ہاتھوں سے محبت نے چھڑایا
اک رات کو اُس نے مجھے سوتا ہوا چھوڑا
چل دی وہ کہیں، پیار کو روتا ہوا چھوڑا
سویا ہوا میں نیند سے جاگا جو سویرے
وہ جب نہ ملی، چھا گئے آنکھوں میں اندھیرے
تقدیر کسی کو بھی برے دن نہ دکھائے
ہوتے ہیں برے وقت میں اپنے بھی پرائے
کیا پیار کی دولت کا طلبگار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اُس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
......
نوید ظفر کیانی
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اُس پہ فدا چار بٹا چار ہوا تھا
ہر روز مسنجر پہ وہ کرتی تھی مجھے ٹا
پابندی سے میں نیٹ پہ لاگ اِن ہوا کرتا
چیٹنگ کا مجھے بھی تھا اُسی کی طرح چسکا
گھنٹوں بنا کرتا تھا میں الو بلا ناغہ
کیا شوق تھا میں جس میں گرفتار ہو ا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
میں نے تو بتایا تھا کہ میں ہوں فرانسیسی
تصویر کسی گورے کی ای میل بھی کی تھی
اُس نے بھی جواباً مجھے تصویر جو بھیجی
لگتی تھی کسی فلمی اداکارہ کی کاپی
کیا جانے مری عقل کو کیا یار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
چیٹنگ کو بہت ”نِک“ تھے اگرچہ سرِ یاہو
طاری تھا فقط ”ناز اٹھارہ“ کا ہی جادو
یک طرفہ نہ تھی میری محبت کسی پہلو
اُس نے بھی کئی بار کہا تھا مجھے۔لو یُو
احساس کا، جذبات کا اظہار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
کچھ روز کٹے یونہی برا وقت جب آیا
ظالم نے مجھے باتوں ہی باتوں میں بتایا
بیٹے کے لئے مانگ چکا ہے مرا تایا
لے جائے گا منگل کو مجھے اللہ وسایا
مت پوچھ کہ کیا سُن کے یہ یکبار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
میں نے کہا وہ وعدے، وہ قسمیں، وہ محبت
کہنے لگی سمجھو کہ حماقت تھی حماقت
طے کر سکو پیرس سے جو پنڈی کی مسافت
دیتی ہوں تمہیں شادی میں شرکت کی میں دعوت
پھر اُس کا پتہ پڑھ کے میں بیدار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
وہ حسن کی دیوی تو پڑوسن مری نکلی
تو لڈو جو کھائے تھے وہ منگنی تھی اُسی کی
چکر مجھے دیتی رہی بلقیس کی بچی
تصویر جو بھیجی تھی اداکارہ کی ہی تھی
میں کیسے گدھا بننے پہ تیار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
وہ اب بھی اسی نِک سے مجھے کرتی ہے ہیلو
ظفرا ہوں یہ میں نے بھی بتایا نہیں اُس کو
موضوعِ سخن اللہ وسایا بھی ہے اب تو
وہ اللہ وسایا کہ مر ا یار بھی ہے جو
ہنستا ہوں کہ کیا تیر تھا جو پار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اُس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
وہ روپ کہ جس روپ سے کلیاں بھی لجائیں
وہ زلف کہ جس زلف سے شرمائیں گھٹائیں
میخانے نگاہوں کے، اداؤں کے ترانے
دے ڈالے مجھے اُس نے محبت کے خزانے
ہاں ایسی ہی اک رات تھی، ایسا ہی سماں تھا
یہ چاند بھی پورا تھا، زمانہ بھی جواں تھا
اک پیڑ کے سائے میں جب اقرار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
کشمیر کی وادی کے وہ پُر کیف نظارے
لمحات محبت کے جہاں ہم نے گزارے
انگڑائیاں لے کر مری بانہوں کے سہارے
گلنار نظر آتے تھے وہ شرم کے مارے
یک طرفہ تو نہ تھے حُسن و محبت کے اشارے
اُس نے بھی کئی بار مرے بال سنوارے
احساس کا، جذبات کا اقرار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
کچھ روز کٹے یوں بھی برا وقت جب آیا
اُس حُسن کی دیوی نے بھی نظثروں کو پھرایا
غربت نے زمانے کی نگاہوں سے گرایا
آنچل مرے ہاتھوں سے محبت نے چھڑایا
اک رات کو اُس نے مجھے سوتا ہوا چھوڑا
چل دی وہ کہیں، پیار کو روتا ہوا چھوڑا
سویا ہوا میں نیند سے جاگا جو سویرے
وہ جب نہ ملی، چھا گئے آنکھوں میں اندھیرے
تقدیر کسی کو بھی برے دن نہ دکھائے
ہوتے ہیں برے وقت میں اپنے بھی پرائے
کیا پیار کی دولت کا طلبگار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اُس کی محبت میں گرفتار ہوا تھا
اک حُسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
......
نوید ظفر کیانی
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
دل اُس پہ فدا چار بٹا چار ہوا تھا
ہر روز مسنجر پہ وہ کرتی تھی مجھے ٹا
پابندی سے میں نیٹ پہ لاگ اِن ہوا کرتا
چیٹنگ کا مجھے بھی تھا اُسی کی طرح چسکا
گھنٹوں بنا کرتا تھا میں الو بلا ناغہ
کیا شوق تھا میں جس میں گرفتار ہو ا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
میں نے تو بتایا تھا کہ میں ہوں فرانسیسی
تصویر کسی گورے کی ای میل بھی کی تھی
اُس نے بھی جواباً مجھے تصویر جو بھیجی
لگتی تھی کسی فلمی اداکارہ کی کاپی
کیا جانے مری عقل کو کیا یار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
چیٹنگ کو بہت ”نِک“ تھے اگرچہ سرِ یاہو
طاری تھا فقط ”ناز اٹھارہ“ کا ہی جادو
یک طرفہ نہ تھی میری محبت کسی پہلو
اُس نے بھی کئی بار کہا تھا مجھے۔لو یُو
احساس کا، جذبات کا اظہار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
کچھ روز کٹے یونہی برا وقت جب آیا
ظالم نے مجھے باتوں ہی باتوں میں بتایا
بیٹے کے لئے مانگ چکا ہے مرا تایا
لے جائے گا منگل کو مجھے اللہ وسایا
مت پوچھ کہ کیا سُن کے یہ یکبار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
میں نے کہا وہ وعدے، وہ قسمیں، وہ محبت
کہنے لگی سمجھو کہ حماقت تھی حماقت
طے کر سکو پیرس سے جو پنڈی کی مسافت
دیتی ہوں تمہیں شادی میں شرکت کی میں دعوت
پھر اُس کا پتہ پڑھ کے میں بیدار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
وہ حسن کی دیوی تو پڑوسن مری نکلی
تو لڈو جو کھائے تھے وہ منگنی تھی اُسی کی
چکر مجھے دیتی رہی بلقیس کی بچی
تصویر جو بھیجی تھی اداکارہ کی ہی تھی
میں کیسے گدھا بننے پہ تیار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
وہ اب بھی اسی نِک سے مجھے کرتی ہے ہیلو
ظفرا ہوں یہ میں نے بھی بتایا نہیں اُس کو
موضوعِ سخن اللہ وسایا بھی ہے اب تو
وہ اللہ وسایا کہ مر ا یار بھی ہے جو
ہنستا ہوں کہ کیا تیر تھا جو پار ہوا تھا
اِک حسن کی دیوی سے مجھے پیار ہوا تھا
Comments
Post a Comment