Khamshi Achi Nahi , Inkaar Hona Chahiye



ظفر اقبال
خامشی اچھی نہیں ، انکار ہونا چاہیے
یہ تماشا اب سرِ بازار ہونا چاہیے
خواب کی تعبیر پر اصرار ہے جن کو ابھی
پہلے ان کو خواب سے بیدار ہونا چاہیے
اب وہی کرنے لگے دیدار سے آگے کی بات
جو کبھی کہتے تھے بس دیدار ہونا چاہیے
بات پوری ہے ، ادھوری چاہیے ، اے جانِ جاں
کام آساں ہے ، اسے دشوار ہونا چاہیے
دوستی کے نام پر کیجے نہ کیونکر دشمنی
کچھ نہ کچھ آخر طریقِ کار ہونا چاہیے
جھوٹ بولا ہے تو قائم بھی رہو اس پر ظفر|
آدمی کو صاحبِ کردار ہونا چاہیے

عنبرین خان
درد کیشدت سے ہی انکار ہونا چاہئے
ضبط کا کچھ اس طرح اظہار ہونا چاہئیے
شاہوں کے دربار دیکھے اور گداؤں کے مزار
عشق کے ماروں کا بھی گھر بار ہونا چاہئے
مجھ سے میری خوشیاں لو اور مجھ کو اپنے رنج دو
اس جہاں میں یہ بھی کاروبار ہونا چاہئیے
کچھ گلہ غم سے نہ ہو اور شادمانی بھی نہ ہو
صبر ہی اب زیست کا معیار ہونا چاہئیے
تبصرے, حالات اور خبریں تو سنتے ہیں مگر
حالِ دل کا بھی کوئی اخبار ہونا چاہئے
ساتھ گر نہ دے سکے جراءت کرے انکار کی
آدمی کو ایسا با کردار ہونا چاہئے
بے دلی میں زندگی کے کتنے موسم کھو گئے
عنبر اب اپنا کوئی دلدار ہونا چاہئے

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo