میں ایک قرض ہوں سر سے اتار دے مجھ کو
لگا کے داؤں پہ اک روز ہار دے مجھ کو
بکھر چکا ہوں غم زندگی کے شانوں پر
اب اپنی زلف کی صورت سنوار دے مجھ کو
ہزار چہرے ابھرتے ہیں مجھ میں تیرے سوا
میں آئنہ ہوں تو گرد و غبار دے مجھ کو
کسی نے ہاتھ بڑھایا ہے دوستی کے لیے
پھر ایک بار خدا اعتبار دے مجھ کو
میں بھوک پیاس کے صحرا میں اب بھی زندہ ہوں
جواہرات کی کرنوں سے مار دے مجھ کو
نظیر باقری
تو اپنے جیسا اچھوتا خیال دے مجھ کو
میں تیرا عکس ہوں اپنا جمال دے مجھ کو
میں ٹوٹ جاؤں گی لیکن نہ جھک سکوں گی کبھی
مجال ہے کسی پیکر میں ڈھال دے مجھ کو
میں اپنے دل سے مٹاؤں گی تیری یاد مگر
تو اپنے ذہن سے پہلے نکال دے مجھ کو
میں سنگ کوہ کی مانند ہوں نہ بکھروں گی
نہ ہو یقیں جو تجھے تو اچھال دے مجھ کو
خوشی خوشی بڑھوں کھو جاؤں تیری ہستی میں
انا کے خوف سے ثانی نکال دے مجھ کو
زرینہ ثانی
مرا اندازہ غلط ہو تو بتا دے مجھ کو
تجھ پہ الزام سوا ہو تو سزا دے مجھ کو
اس نے آنکھوں میں جگہ دی بھی تو آنسو کی طرح
شاید اک ہلکی سی جنبش بھی گرا دے مجھ کو
تیری نظروں میں محبت بھی ہے اک کھیل تو آ
میں کروں تجھ پہ بھروسہ تو دغا دے مجھ کو
میں اجالا ہوں تو تنویر مجھے اپنی بنا
اور اندھیرا ہوں تو اے شمع مٹا دے مجھ کو
اپنی تقدیر سے ٹکراؤں بدل ڈالوں اسے
اتنی توفیق کبھی میرے خدا دے مجھ کو
کتنی دیر اور رہانسا مجھے رکھے گا خیال
اب رلانا ہے تو پھر صاف رلا دے مجھ کو
پریہ درشی ٹھا کرخیال
No comments:
Post a Comment