Raat Aa Baithi Hai Pehlo Mein Sitaro Takhalia
یک ردیف دو شاعر
رحمان فارس + فوزیہ شیخ
رحمان فارس + فوزیہ شیخ
رات آ بیٹھی ھے پہلو میں، ستارو ! تخلیہ
اب ہمیں درکار ھے خلوت، سو یارو ! تخلیہ
اب ہمیں درکار ھے خلوت، سو یارو ! تخلیہ
آنکھ وا ھے اور حُسنِ یار ھے پیشِ نظر
شش جہت کے باقی ماندہ سب نظارو ! تخلیہ
دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے
کُج کُلاھو ! بادشاہو ! تاجدارو ! تخلیہ
غم سے اب ھو گی براہِ راست میری گفتگو
دوستو ! تیمار دارو ! غم گسارو ! تخلیہ
چاروں جانب ھے ہجومِ نا شنایانِ سُخن
اپنے پورے زور سے فارس پُکارو ! تخلیہ
رحمان فارس
---------------------------
سوز ِ حیاتِ ہجر کے کہسارو تخلیہ
اے میری غمِ ہستی کے غم خوارو تخلی
اس نفس ِ بیقرار کا انجام موت ہے
دعوت مجھے نہ دو اے گنہگارو تخلی
قلبی سکون بیچ کے عشرت نہ اب خرید
دنیا میں لگے حرص کے بازارو تخلی
انسان کے لہو سے تیرے ہاتھ لال ہیں
آشفتہ سرو ، ظلم کی تلوارو تخلی
انسان جل رہا ہے خود اپنی ہی آگ میں
یاروں کے پھونکتے ھوئے انگارو تخلی
انسانیت کے بھیس میں وحشی ہیں سب یہاں
پہچانتی ہوں تم کو میرے یارو تخلی
دنیا کسی فقیر کے کاسے میں ڈال دی
دنیا کی خواہشوں کے طلبگارو تخلی
ادھڑے پرانے زخموں کی بخیہ گری نہ کر
راہ ِ ملن کے مطلبی فنکارو تخلی
کیوں ہاتھ کی لکیر میں قسمت کروں تلاش
ٹوٹے ھوئے تقدیر کے اے تارو تخلی
مسند نشیں ہیں دل میں زمانے کی تلخیاں
اجڑے دیار کے سبھی گلزارو تخلی
دانستہ لٹ رہی ہوں مری سادگی تو دیکھ
بس معاف کرو اب مجھے سرکارو تخلی
بالا ہیں میری عقل سے دنیا ترے اصول
اے دوستو، اے دشمنو، اغیارو ،،، تخلی
فوزیہ شیخ
شش جہت کے باقی ماندہ سب نظارو ! تخلیہ
دیکھنے والا تھا منظر جب کہا درویش نے
کُج کُلاھو ! بادشاہو ! تاجدارو ! تخلیہ
غم سے اب ھو گی براہِ راست میری گفتگو
دوستو ! تیمار دارو ! غم گسارو ! تخلیہ
چاروں جانب ھے ہجومِ نا شنایانِ سُخن
اپنے پورے زور سے فارس پُکارو ! تخلیہ
رحمان فارس
---------------------------
سوز ِ حیاتِ ہجر کے کہسارو تخلیہ
اے میری غمِ ہستی کے غم خوارو تخلی
اس نفس ِ بیقرار کا انجام موت ہے
دعوت مجھے نہ دو اے گنہگارو تخلی
قلبی سکون بیچ کے عشرت نہ اب خرید
دنیا میں لگے حرص کے بازارو تخلی
انسان کے لہو سے تیرے ہاتھ لال ہیں
آشفتہ سرو ، ظلم کی تلوارو تخلی
انسان جل رہا ہے خود اپنی ہی آگ میں
یاروں کے پھونکتے ھوئے انگارو تخلی
انسانیت کے بھیس میں وحشی ہیں سب یہاں
پہچانتی ہوں تم کو میرے یارو تخلی
دنیا کسی فقیر کے کاسے میں ڈال دی
دنیا کی خواہشوں کے طلبگارو تخلی
ادھڑے پرانے زخموں کی بخیہ گری نہ کر
راہ ِ ملن کے مطلبی فنکارو تخلی
کیوں ہاتھ کی لکیر میں قسمت کروں تلاش
ٹوٹے ھوئے تقدیر کے اے تارو تخلی
مسند نشیں ہیں دل میں زمانے کی تلخیاں
اجڑے دیار کے سبھی گلزارو تخلی
دانستہ لٹ رہی ہوں مری سادگی تو دیکھ
بس معاف کرو اب مجھے سرکارو تخلی
بالا ہیں میری عقل سے دنیا ترے اصول
اے دوستو، اے دشمنو، اغیارو ،،، تخلی
فوزیہ شیخ
Comments
Post a Comment