Yaar Tha , Gulzaar Tha , Mai Thi , Fiza Thi , Main Na Tha
بہادر شاہ ظفر
یار تھا، گلزار تھا،مے تھی،فضا تھی،میں نہ تھا
لائق پابوس جاناں کیا حناتھی،میں نہ تھا
ہاتھ کیوں باندھے مرے ،چھلا اگر چوری گیا
یہ سراپا شوخئ دزد حنا تھی، میں نہ تھا
بے خودی میں لے لیا بوسہ،خطاکیجے معاف
یہ دل بیتاب کی ساری خطا تھی، میں نہ تھا
ہاۓ ساقی!ہو یہ ساماں اور عاشق داں نہ ہو
یارتھا،سبزہ تھا،بدلی تھی،ہواتھی،میں نہ تھا
میں سسکتا رہ گیا اور مر گۓ فرہاد و قیس
کیا انہی دونوں کے حصے میں قضا تھی،میں نہ تھا
میں نے پوچھا کیا ہوا وہ آپ کا حسن و شباب
ہنس کے بولا وہ صنم ،شان خدا تھی ،میں نہ تھا
اے ظفر! یہ میرے دل پہ داغ کیسا رہ گیا
خا نہ باغ یار میں خلق خدا تھی ،میں نہ تھا
عبدالحمید عدم
مے کدہ تھا چاندنی تھی میں نہ تھا
اک مجسمِ بے خودی تھی میں نہ تھا
عشق جب دم توڑتا تھا تم نہ تھے
موت جب سرِ دھن رہی تھی میں نہ تھا
طور پر چھیڑا تھا جس نے آپ کو
وہ مری دیوانگی تھی میں نہ تھا
وہ حسیں بیٹھا تھا جب میرے قریب
لذتِ ہم سائیگی تھی میں نہ تھا
مے کدہ کے موڑ پر رکتی ہوئی
مدتوں کی تشنگی تھی میں نہ تھا
تھی حقیقت کچھ مری تو اس قدر
اس حسیں کی دل لگی تھی میں نہ تھا
میں اور اس غنچہِ دہن کی آرزو
آرزو کی سادگی تھی میں نہ تھا
جس نے مہ پاروں کے دل پگھلا دیے
وہ تو میری شاعری تھی میں نہ تھا
گیسوؤں کے سائے میں آرام کَش
سر برہنہ زندگی تھی میں نہ تھا
دیر و کعبہ میں عدم حیرت فروش
دو جہاں کی بد ظنی تھی میں نہ تھا
رؤف خیر
زندگی احسان ہی سے ماورا تھی میں نہ تھا
طاق پر رکھی ہوئی میری دوا تھی میں نہ تھا
میری ہستی آئینہ تھی یا شکست آئینہ
بات اتنی سی نہ سمجھے میرے ساتھی میں نہ تھا
تو ہی تو سب کچھ سہی نا چیز یہ اب کچھ سہی
وہ تو میری ابتدا بے انتہا تھی میں نہ تھا
دیکھتا رہتا ہوں منظر دیدنی نا دیدنی
ہاں مگر حیران چشم ماسوا تھی میں نہ تھا
تو مجھے دشمن سمجھتا ہے تو دشمن ہی سہی
تو بھی واقف ہے کوئی نادان ساتھی میں نہ تھا
میرے اندر کا درندہ کھا رہا تھا پیچ و تاب
اور پھر شائستگی زنجیر پا تھی میں نہ تھا
خیر اب تو چیونٹی بھی دوڑتی ہے کاٹنے
جھولتے تھے جب کہ دروازے پہ ہاتھی میں نہ تھا
آغا حجو شرف
جشن تھا عیش و طرب کی انتہا تھی میں نہ تھا
یار کے پہلو میں خالی میری جا تھی میں نہ تھا
اس نے کب برخاست اے دل محفل معراج کی
کس سے پوچھوں رات کم تھی یا سوا تھی میں نہ تھا
میں تڑپ کر مر گیا دیکھا نہ اس نے جھانک کر
اس ستم گر کو عزیز اپنی حیا تھی میں نہ تھا
وعدہ لے لیتا کہ کھلوانہ نہ مجھ کو ٹھوکریں
عالم ارواح میں جس جا قضا تھی میں نہ تھا
صرف کرتا کس خوشی سے جا کے اس میں اپنی خاک
کیا کہوں جس دن بنائی کربلا تھی میں نہ تھا
منہ نہ کھل سکتا نہ ہوتے ہم کلام ان سے کلیم
عمر بھر حسرت ہی رہتی بات کیا تھی میں نہ تھا
لے گئی تھی مجھ کو حسرت جانب خود رفتگی
جس طرف کو منزل بیم و رجا تھی میں نہ تھا
دل الٹ جاتا مرا یا دم نکل جاتا مرا
شکر ہے جب لن ترانی کی صدا تھی میں نہ تھا
لالہ و گل کو بچا لیتا خزاں سے اے شرف
باغ میں جس وقت نازل یہ بلا تھی میں نہ تھا
سیّد یوسف علی خاں ناظم
بر سر لطف آج چشم دل ربا تھی میں نہ تھا
ڈھونڈھتی مجھ کو نگاہ آشنا تھی میں نہ تھا
یار کو مد نظر مشق جفا تھی میں نہ تھا
وائے قسمت کل وہاں میری قضا تھی میں نہ تھا
میرے ہوتے بے تکلف ہاتھا پائی غیر سے
قابل اس رتبے کے ظالم کیا حنا تھی میں نہ تھا
آہ میری نارسا فریاد میری بے اثر
نیند اڑا دی جس نے تیری وہ ہوا تھی میں نہ تھا
یاد فرمانا تھا مجھ کو بھی دم گلگشت باغ
ساتھ چلنے کو جلو میں کیا صبا تھی میں نہ تھا
اے پری پابوس سے محروم کیوں رکھا مجھے
خوں گرفتہ اس چمن میں کیا حنا تھی میں نہ تھا
وائے قسمت ڈھونڈتی تھی کل مجھے شمشیر یار
رحمت عام اس کی سر گرم عطا تھی میں نہ تھا
جام مینا بادہ ساقی چنگ دف بربط رباب
نہر گلشن چاندنی سبزہ فضا تھی میں نہ تھا
اپنے کوچے میں کیا ہوتا مجھے جاروب کش
صاحب اس خدمت کے قابل کیا صبا تھی میں نہ تھا
توڑ کر افلاک جو پہنچی سر عرش بریں
قدسیو وہ میری آہ نارسا تھی میں نہ تھا
عمر رفتہ تو ہی مجھ واماندہ کا سن لے پیام
قافلے والوں سے کہہ دینا کہ ساتھی میں نہ تھا
صبح وصل آزردگی مجھ سے ہی کس تقصیر پر
وجہ ناراضی تو میری التجا تھی میں نہ تھا
جب گلہ آشوب پردازوں کا اس بت سے کیا
بول اٹھا شوخی سے چشم فتنہ زا تھی میں نہ تھا
جام مینا بادہ ساقی تھا یہ سب ناظم وہاں
پر مری قسمت کہ خالی میری جا تھی میں نہ تھا
قیصر نظامی
عالم امکاں میں دنیا کی ہوا تھی میں نہ تھا
جلوہ آرا صرف ذات کبریا تھی میں نہ تھا
کر دیا بیدار جس نے ساکنان عرش کو
وہ کسی درد آشنا دل کی صدا تھی میں نہ تھا
منتشر جس نے کیا تھا ان کی زلف ناز کو
سچ اگر پوچھو تو وہ باد صبا تھی میں نہ تھا
کھل گیا جو راز الفت آج اہل بزم پر
یہ تمہاری مست نظروں کی خطا تھی میں نہ تھا
تنگ آ کر گردش ایام سے بہر سجود
وہ تو میری زندگی وقف دعا تھی میں نہ تھا
حد سے جب قیصر بڑھی ان کی جفائے ناروا
جو بروئے کار آئی وہ وفا تھی میں نہ تھا
جمیلہ خدا بخش
یار کہتا ہے تجلئ لقا تھی میں نہ تھا
طور سینا پر وہی جلوہ نما تھی میں نہ تھا
گنبد افلاک پر جس کا ہوا اکثر گزر
وہ دل بیمار غم کی اک دعا تھی میں نہ تھا
ہر طرف تھی عالم امکاں میں جو پھیلی ہوئی
میرے اسرار حقیقت کی ضیا تھی میں نہ تھا
مثل بوئے گل ترے کوچہ میں تھا جس کا گزر
اے صنم وہ میری جان مبتلا تھی میں نہ تھا
بوستاں میں طالب دیدار تھی جو آپ کی
وہ گل نرگس کی چشم با ضیا تھی میں نہ تھا
بعد مردن قبر میں مجھ کو سلا کر یہ کہا
درد تھا بیتابیاں تھیں اور قضا تھی میں نہ تھا
اک جھلک دکھلا کے اپنی کس ادا سے کہہ گیا
جس کو دیکھا وہ بھی شان کبریا تھی میں نہ تھا
جس نے چوما وقت پامالی قدوم ناز کو
خون دل با شوخئ رنگ حنا تھی میں نہ تھا
درگزر کر آئنے سے آپ نے موڑا ہے منہ
اس میں میری حسرت حیرت فزا تھی میں نہ تھا
زاری و شیون ہماری کب سنی ہیں آپ نے
بوستاں میں بلبل نغمہ سرا تھی میں نہ تھا
اڑ کے جو پہنچی صبا کے ساتھ گلیوں میں تری
مشت خاک کشتۂ تیغ ادا تھی میں نہ تھا
دیکھ کر ان کو جو میں فرط مسرت سے مرا
وہ لگے کہنے کہ یہ اس کی قضا تھی میں نہ تھا
تھا میں تصویر خیالی ہستئ موہوم میں
وہ بھی شان عشق شاہ دو سرا تھی میں نہ تھا
اے جمیلہ بوستان عشق میں وقت سحر
نکہت گل سی جو پہنچی وہ صبا تھی میں نہ تھا
Comments
Post a Comment