Malaal Ha , Magar Itna Malaal Thodi Ha Ye Aankh Rony Ki Shiddat Se Laal Thodi Ha
پہلی تین غزلیں
مشترک قافیہ اور ردیف
ملال ہے ، مگر اتنا ملال تھوڑی ہے
یہ آنکھ رونے کی شدت سے لال تھوڑی ہے
بس اپنے واسطے ہی فکر مند ہیں سب لوگ
یہاں کسی کو کسی کا خیال تھوڑی ہے
پروں کو کاٹ دیا ہے، اڑان سے پہلے
یہ شوق ہجر ہے، شوق وصال تھوڑی ہے
مزہ تو جب ہے کہ، ہار کے بھی ہنستے رہو
ہمیشہ جیت ہی جانا، کمال تھوڑی ہے
لگانی پڑتی ہے ڈبکی، ابھرنے سے پہلے
غروب ہونے کا مطلب، زوال تھوڑی ہے
پروین شاکر
---------------------------------------------
تمہارے جانے کا ہم کو ملال تھوڑی ہے
اداسیوں میں تمہارا خیال تھوڑی ہے
مناؤں کس طرح ہولی میں دوستوں کے ساتھ
ہیں سب کے ہاتھ میں خنجر گلال تھوڑی ہے
مجھے یہ غم ہے وہ اب ساتھ ہے رقیبوں کے
یہ آنکھ اس کے بچھڑنے سے لال تھوڑی ہے
سوال یہ ہے ہوا آئی کس اشارے پر
چراغ کس کے بجھے یہ سوال تھوڑی ہے
کرم ہے اس کا اگر وہ نوازتا ہے ہمیں
ہمارے سجدوں کا اس میں کمال تھوڑی ہے
نادم ندیم
-----------------------------------------------
وہ بے وفا ہے ہمیں یہ ملال تھوڑی ہے
ہمیں بھی رات دن اس کا خیال تھوڑی ہے
ابھی ہے قید میں بے شک جہاں کی رسموں کے
ابھی سزاؤں سے ناری بحال تھوڑی ہے
غلام اپنا بنا لیں جو خواہشات کو ہم
بسر غریبی میں کرنا محال تھوڑی ہے
ہماری آنکھ میں شرم و حیا کا ہے پردہ
نظر ملائے کوئی یہ مجال تھوڑی ہے
وفا کرو گے تو ہم سے وفا ہی پاؤ گے
تمہارے ساتھ انا کا سوال تھوڑی ہے
ذرا یقین کا چشمہ لگا کے دیکھو تو
ابھی وفاؤں کا اتنا اکال تھوڑا ہے
یہ کیسی چاروں طرف چاندنی بکھرتی ہے
کوئی حسین ہے چھت پر ہلال تھوڑی ہے
یہ بات آج مجھے آئنے نے سمجھائی
تمہارے حسن پہ اتنا زوال تھوڑی ہے
ضرور تم ہو کسی کے چڑھائے میں ورنہ
تمہارے خون میں اتنا ابال تھوڑی ہے
ہمارا دل تو ہے شفاف آئنے کی طرح
اس آئنے میں بھلا کوئی بال تھوڑی ہے
مناکشی جی جی ویشا
---------------------------------------------------
مختلف قافیہ.......مشترک ردیف
تھوڑی ہے
-------------------
تمھارا وعدہ خدائی قرار تھوڑی ہے
چمکتی شے کا کوئی اعتبار تھوڑی ہے
رئیس شہر! ترا انتظار تھوڑی ہے
ترے کرم پہ مرا انحصار تھوڑی ہے
جنوں میں حد سے ہم اہلِ جنوں گزر جائیں
ہمارا اہلِ خرد میں شمار تھوڑی ہے
وہ ہم سے پیش نہ آئے گا بادشاہوں سا
وزیر ہے وہ کوئی شہریار تھوڑی ہے
ہم اُس کے آگے کبھی سر جھکا نہیں سکتے
امیر شہر ہے پروردگار تھوڑی ہے
امیر وقت کے درباریوں میں رہنا کیا
یہ بات باعثِ صد افتخار تھوڑی ہے
محل نشینو! تکلّف کرو نہ آنے میں
مرا ٹھکانہ سرِ رہ گذار تھوڑی ہے
کہاں سے لاؤں میں قالین اب تمھارے لیے
درِ فقیر ہے شاہی دیار تھوڑی ہے
خیال سود کا رکھتے ہو تو پلٹ جاؤ
یہ شاعری ہے کوئی کاروبار تھوڑی ہے
فراغ اشاروں میں ہی گفتگو کرے گا کہ وہ
سخن طراز ہے نامہ نگار تھوڑی ہے
فراغ روہوی
---------------------------------------------
ﯾﮧ ﻣﺰﮦ ﭘﺎﺋﯿﺪﺍﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
ﻭﺻﻞ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
ﮨﻢ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﻣﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﺁﭖ ﮐﺎ ﺍﻧﺘﻈﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ؟
ﺍﮎ ﮔﺮﯾﺒﺎﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﭼﺎﮎ
ﯾﮧ ﺧﺰﺍﮞ ﮨﮯ، ﺑﮩﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
ﺳﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺫﻭﻕ ﮨﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﺎ
ﮨﻢ ﮐﻮ ﻧﺎﻟﻮﮞ ﺳﮯ ﻋﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
ﻧﻔﻊ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﺳﮯ ﮨﻤﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﯽ
ﻋﺸﻖ ﮨﮯ، ﮐﺎﺭﻭﺑﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
ﺍﺻﻞ ﻭﺣﺸﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﺁﮰ ﻣﮕﺮ
ﺍﺱ ﺟﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺮﺍﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﺑﮭﯽ ﮐﻤﺒﺨﺖ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ ﺷﺠﺎﻉ
ﺁﻧﮑﮫ ﮨﯽ ﺍﺷﮏ ﺑﺎﺭ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﮨﮯ
ﺷﺠﺎﻉ ﺧﺎﻭﺭ
-----------------------------------------------
مرا پڑوسی کوئی مال دار تھوڑی ہے
یہ کار بینک کی ہے اس کی کار تھوڑی ہے
ہر ایک ملک میں جائیں گے کھائیں گے جوتے
کہ بزدلوں میں ہمارا شمار تھوڑی ہے
خدا کا شکر ہے چکر کئی سے ہیں اپنے
بس ایک بیوی پہ دار و مدار تھوڑی ہے
گلے میں ڈال کے باہیں سڑک پہ گھومیں گے
ہے نقد عشق ہمارا ادھار تھوڑی ہے
ہمارا پیار جو قاضی نکاح تک پہونچے
ہمارے بیچ کوئی اتنا پیار تھوڑی ہے
جو فون بند رکھوں کال نہ اٹھاؤں میں
کسی کے باپ کا مجھ پہ ادھار تھوڑی ہے
احمد علوی
----------------------------------------------------
یونہی اداس ھے دل بیقرار تھوڑی ھے
مجھے کسی کا کوئ انتظار تھوڑی ھے
نظر ملا کے بھی تم سے کوئ گلہ کروں کیسے....؟
تمہارے دل پہ میرا اختیار تھوڑی ھے
مجھے بھی نیند نہ آۓ تمہی بھی چین نہ ھو
ھمارے بیچ بھلا اتنا پیار تھوڑی ھے
خزاں ھی ڈھونڈتی رھتی ھے دربام در مجھکو
میری تلاش میں پاگل بہار تھوڑی ھے
نجانے کون اپنا بنا کے چھوڑ جاۓ
یہاں کسی کا کوئ اعتبار تھوڑی ھے۔
نامعلوم
----------------------------------------------------
آئینے میں غبار تھوڑی ھے
آنکھ اب اشکبار تھوڑی ھے
دیر آنے میں کر رہا ھے وصال
ھجر سر پر سوار تھوڑی ھے
یہ جو ڈوبا تو زندگی ڈوبی
عشق ھے کاروبار تھوڑی ھے
کون آ ئے گا اب ضمانت کو ؟
پیار ھے یہ اُدھار تھوڑی ھے
ہر کوئی آکے بس نہیں سکتا
دل ھے کوئی دیار تھوڑی ھے
جس کو دیکھا،کہا تمہی تم ہو
یہ وفا کا معیار تھوڑی ھے
آؤ ھم ٹوٹ کر ملیں صاحب
زندگی بار بار تھوڑی ھے
جائیے ، چھیڑ چھاڑ اپنی جگہ
آپ سے ھم کو پیار تھوڑی ھے
یونہی دیکھا ھے بس گھڑی کی طرف
آپ کا انتظار تھوڑی ھے
اُسکو بھُولیں کہ یاد اُسکو کریں
دل پہ اب اختیار تھوڑی ھے
سر سے اُترے گا عشق کیسے بتول؟
ایسا ویسا خمار تھوڑی ھے
فاخرہ بتول
Comments
Post a Comment