Rahat Na Mil Saki Mujhe Maikhana Chorr Kar Gardish Mein Hon Main Gardish-e-Paimana Chorr Kar



 ردیف ----- چھوڑ کر

راحت نہ مل سکی مجھے مے خانہ چھوڑ کر
گردش میں ہوں میں گردش پیمانہ چھوڑ کر

خم میں سبو میں جام میں نیت لگی رہی
مے خانے ہی میں ہم رہے مے خانہ چھوڑ کر

آنکھوں کو چھوڑ جاؤں الٰہی میں کیا کروں
ہٹتی نہیں نظر رخ جانانہ چھوڑ کر

آتا ہے جی میں ساقئ مہ وش پہ بار بار
لب چوم لوں ترا لب پیمانہ چھوڑ کر

ہوتی کہاں ہے دل سے جدا دل کی آرزو
جاتا کہاں ہے شمع کو پروانہ چھوڑ کر

دو گھونٹ نے بڑھا دیے رندوں کے حوصلے
مینا و خم پہ جھک پڑے پیمانہ چھوڑ کر

پھر بوئے زلف یار نے آ کر ستم کیا
پھر چل دیا مجھے دل دیوانہ چھوڑ کر

یاد آئی کس کی آنکھ کہ رند اٹھ کھڑے ہوئے
پیمانہ توڑ کر مے و مے خانہ چھوڑ کر

دنیا میں عافیت کی جگہ ہے یہی جلیل
جانا کہیں نہ گوشۂ مے خانہ چھوڑ کر

جلیل مانک پوری

**************************

احسان لے نہ ہمت مردانہ چھوڑ کر
رستہ بھی چل تو سبزۂ بیگانہ چھوڑ کر
مرنے کے بعد پھر نہیں کوئی شریک حال
جاتا ہے شمع کشتہ کو پروانہ چھوڑ کر
ہونٹوں پہ آج تک ہیں شب عیش کے مزے
ساقی کا لب لیا لب پیمانہ چھوڑ کر
افعی نہیں کھلی ہوئی زلفوں کا عکس ہے
جاتے کہاں ہو آئینہ و شانہ چھوڑ کر
طول امل پہ دل نہ لگانا کہ اہل بزم
جائیں گے ناتمام یہ افسانہ چھوڑ کر
لبریز جام عمر ہوا آ گئی اجل
لو اٹھ گئے بھرا ہوا پیمانہ چھوڑ کر
اس پیر زال دہر کی ہم ٹھوکروں میں ہیں
جب سے گئی ہے ہمت مردانہ چھوڑ کر
پہروں ہمارا آپ میں آنا محال ہے
کوسوں نکل گیا دل دیوانہ چھوڑ کر
اترا جو شیشہ طاق سے زاہد کا ہے یہ حال
کرتا ہے رقص سجدۂ شکرانہ چھوڑ کر
یہ سمعۂ دریا نشانی ہے کفر کی
زنار باندھ سبحۂ صد دانہ چھوڑ کر
رندان مے کدہ بھی ہیں اے خضر منتظر
بستی میں آئیے کبھی ویرانہ چھوڑ کر
احسان سر پہ لغزش مستانہ کا ہوا
ہم دو قدم نہ جا سکے مے خانہ چھوڑ کر
وادی بہت مہیب ہے بیم و امید کا
دیکھیں گے شیر پر دل دیوانہ چھوڑ کر
رو رو کے کر رہی ہے صراحی وداع اسے
جاتا ہے دور دور جو پیمانہ چھوڑ کر
توبہ تو کی ہے نظم بنا ہوگی کس طرح
کیوں کر جیو گے مشرب رندانہ چھوڑ کر

نظم طبا طبائی

********************************

جب چلا وہ مجھ کو بِسمِل خوں میں غلطاں چھوڑ کر
کیا ہی پچھتاتا تھا میں قاتِل کا داماں چھوڑ کر
میں وہ مجنوں ہُوں جو نِکلوں کُنجِ زِنداں چھوڑ کر
سیبِ جنّت تک نہ کھاؤں سنگِ طِفلاں چھوڑ کر
میں ہُوں وہ گمنام، جب دفتر میں نام آیا مِرا
رہ گیا بس مُنشیِ قُدرت جگہ واں چھوڑ کر
سایۂ سروِ چمن تجھ بِن ڈراتا ہے مجھے
سانپ سا پانی میں اے سروِ خِراماں چھوڑ کر
ہوگیا طِفلی ہی سے دِل میں ترازُو تِیرِ عِشق
بھاگتے ہیں مکتب سے ہم اوراقِ مِیزاں چھوڑ کر
اہلِ جوہر کو وطن میں رہنے دیتا گر فلک
لعل کیوں اِس رنگ میں آتا بَدخشاں چھوڑ کر
شوق ہے اُس کو بھی طرزِ نالۂ عُشاق سے
دَم بَدم چھیڑے ہے مُنْہ سے دودِ قِلیاں چھوڑ کر
دِل تو لگتے ہی لگے گا حُوریانِ عدن سے
باغ ہَستی سے چَلا ہُوں ہائے پریاں چھوڑ کر
گھر سے بھی واقِف نہیں اُس کے،، کہ جس کے واسطےب
یٹھے ہیں گھربار ہم سب خانہ وِیراں چھوڑ کر
وصل میں گر ہووے مجھ کو رُویَتِ ماہِ رَج
َبرُوئے جاناں ہی کو دیکھوں میں تو قُرآں چھوڑ کر
اِن دِنوں گرچہ دَکن میں ہے بڑی قدرِ سُخن
کون جائے ذوق پر دِلّی کی گلیاں چھوڑ کر

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo