Dil Us Se Laga Jis Se Rootha Bhi Nahi Jata,Kaam Us Se Pada Jis Ko Choda Bhi Nahi Jata



ایک ردیف 6 شاعر...(بھی نہیں جاتا)

شہرت بخاری/یگانہ چنگیزی/عمران ساگر/وسیم اصغر ناز/ولی مدنی/احمد فراز
 
***************************************************

دل اس سے لگا جس سے روٹھا بھی نہیں جاتا
کام اس سے پڑا جس کو چھوڑا بھی نہیں جاتا

دن رات تڑپتا ہوں اب جس کی جدائی میں
وہ سامنے آئے تو دیکھا بھی نہیں جاتا

منزل پہ پہنچنے کی امید بندھے کیسے
پاؤں بھی نہیں اٹھتے رستہ بھی نہیں جاتا

یہ کون سی بستی ہے یہ کون سا موسم ہے
سوچا بھی نہیں جاتا بولا بھی نہیں جاتا

انگاروں کی منزل میں زنجیر بپا ہیں ہم
ٹھہرا بھی نہیں جاتا بھاگا بھی نہیں جاتا

اس مرتبہ چھائی ہے کچھ ایسی گھٹا جس سے
کھلنا بھی نہیں ہوتا برسا بھی نہیں جاتا

ہر حال میں اتنے بھی بے بس نہ ہوئے تھے ہم
دلدل بھی نہیں لیکن نکلا بھی نہیں جاتا

مر جاتے تھے غیروں کے کانٹا بھی جو چبھتا تھا
خود قتل ہوئے لیکن رویا بھی نہیں جاتا

کافر ہوں جو حسرت ہو جینے کی مگر شہرت
اس حال میں یاروں کو چھوڑا بھی نہیں جاتا

شہرت بخاری

*********************

دنیا کا چلن ترک کیا بھی نہیں جاتا
اس جادۂ باطل سے پھرا بھی نہیں جاتا

زندان مصیبت سے کوئی نکلے تو کیونکر
رسوا سر بازار ہوا بھی نہیں جاتا

دل بعد فنا بھی ہے گراں بار امانت
دنیا سے سبک دوش اٹھا بھی نہیں جاتا

کیوں آنے لگے شاہد عصمت سر بازار
کیا خاک کے پردے میں چھپا بھی نہیں جاتا

اک معنی بے لفظ ہے اندیشۂ فردا
جیسے خط قسمت کہ پڑھا بھی نہیں جاتا

یگانہ چنگیزی
 
*******************

پریشاں ہوں ترا چہرہ بھلایا بھی نہیں جاتا
کسی سے حال دل اپنا سنایا بھی نہیں جاتا

وہ آ جائے تو یہ بھی کہہ نہیں سکتا ٹھہر جاؤ
اگر وہ جا رہا ہو تو بلایا بھی نہیں جاتا

زباں خاموش رہتی ہے پر آنکھیں بول دیتی ہیں
ان آنکھوں سے تو راز دل چھپایا بھی نہیں جاتا

سبھی عمرانؔ کی صورت نہیں ہوتے ہیں دنیا میں
ہر اک انسان کو دل میں بسایا بھی نہیں جاتا

کوئی طاقت مجھے مرنے نہیں دیتی ہے اے ساگر
میں مرنا چاہتا ہوں زہر کھایا بھی نہیں جاتا

عمران ساگر
 
*********************

اب تو مجھ سے رویا بھی نہیں جاتا
جانے کیوں راتوں کو سویا بھی نہیں جاتا

حسرت سے نظر اٹھا کر تکتا ہوں تاروں
ہاتھ بڑھا کر ان کو چھویا بھی نہیں جاتا

پلکوں پر نمی سے رہنے لگی ہے
سب کے سامنے آنکھوں کو بھگویا بھی نہیں جاتا

مر جانے کو بہت جی چاہتا ہے مگر
خود اپنا سفینہ تو ڈبویا بھی نہیں جاتا

اتنے غم دئیے ہیں زمانے نے ناز کو
آنسوؤں کو پلکوں میں اب سمویا بھی نہیں جاتا

وسیم اصغر ناز
*************************

دل پیار کے رشتوں سے مکر بھی نہیں جاتا
شاکی ہے مگر چھوڑ کے در بھی نہیں جاتا

ہم کس سے کریں شعلگیٔ مہر کا شکوہ
اے ابر گریزاں تو ٹھہر بھی نہیں جاتا

اس شہر انا میں جو فسادات نہ چھڑتے
تو پیار کا یہ شوق سفر بھی نہیں جاتا

وہ فہم و فراست کا دیا ہاتھ میں لے کر
اس دور شدد سے گزر بھی نہیں جاتا

اس ایک کی رسی کو اگر تھام کے رہتے
پھر اپنی دعاؤں کا اثر بھی نہیں جاتا

یہ زیست کے لمحے ہیں ولی قیمتی ہیرے
کیوں کوئی بڑا کام تو کر بھی نہیں جاتا

ولی مدنی

*********************

قربت بھی نہیں دل سے اتر بھی نہیں جاتا
وہ شخص کوئی فیصلہ کر بھی نہیں جاتا

آنکھیں ہیں کہ خالی نہیں رہتی ہیں لہو سے
اور زخم جدائی ہے کہ بھر بھی نہیں جاتا

وہ راحت جاں ہے مگر اس در بدری میں
ایسا ہے کہ اب دھیان ادھر بھی نہیں جاتا

ہم دوہری اذیت کے گرفتار مسافر
پاؤں بھی ہیں شل شوق سفر بھی نہیں جاتا

دل کو تری چاہت پہ بھروسہ بھی بہت ہے
اور تجھ سے بچھڑ جانے کا ڈر بھی نہیں جاتا

پاگل ہوئے جاتے ہو فراز اس سے ملے کیا
اتنی سی خوشی سے کوئی مر بھی نہیں جاتا

احمد فراز
 
***********************

مختلف ردیف(ہوا بھی نہیں جاتا)

یاں ہوش سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا
اس بزم میں ہشیار ہوا بھی نہیں جاتا

کہتے ہو کہ ہم وعدۂ پرسش نہیں کرتے
یہ سن کے تو بیمار ہوا بھی نہیں جاتا

دشوارئ انکار سے طالب نہیں ڈرتے
یوں سہل تو اقرار ہوا بھی نہیں جاتا

آتے ہیں عیادت کو تو کرتے ہیں نصیحت
احباب سے غم خوار ہوا بھی نہیں جاتا

جاتے ہوئے کھاتے ہو مری جان کی قسمیں
اب جان سے بے زار ہوا بھی نہیں جاتا

غم کیا ہے اگر منزل جاناں ہے بہت دور
کیا خاک رہ یار ہوا بھی نہیں جاتا

دیکھا نہ گیا اس سے تڑپتے ہوئے دل کو
ظالم سے جفاکار ہوا بھی نہیں جاتا

یہ طرفہ ستم ہے کہ ستم بھی ہے کرم بھی
اب خوگر آزار ہوا بھی نہیں جاتا

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment

Featured post

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo

Main tumko bhool jaonga lekin yeh shart hai Gulshan mein chal ke phool se khushbo juda karo