Garmi-e-Hasrat-e-Na-Kaam Se Jal Jate Hain,Hum Chiraghon Ki Tarah Shaam Se Jal Jate Hain
گرمیِٔ حسرتِ ناکام سے جل جاتے ہیں
ہم چراغوں کی طرح شام سے جل جاتے ہیں
شمع جس آگ میں جلتی ہے نمائش کے لیے
ہم اسی آگ میں گمنام سے جل جاتے ہیں
بچ نکلتے ہیں اگر آتشِ سیال سے ہم
شعلۂِ عارضِ گلفام سے جل جاتے ہیں
خود نمائی تو نہیں شیوۂِ اربابِ وفا
جن کو جلنا ہو وہ آرام سے جل جاتے ہیں
ربطِ باہم پہ ہمیں کیا نہ کہیں گے دشمن
آشنا جب ترے پیغام سے جل جاتے ہیں
جب بھی آتا ہے مرا نام ترے نام کے ساتھ
جانے کیوں لوگ مرے نام سے جل جاتے ہیں
قتیل شفائی
*****************************
یہ نہیں کثرتِ آلام سے جل جاتے ہیں
دل تمنائے خوش انجام سے جل جاتے ہیں
ان سے پوچھے کوئی مفہومِ حیاتِ انساں
مقبروں میں جو دیئے شام سے جل جاتے ہیں
ذکر آتا ہے مرا اہلِ محبت میں اگر
میرے احباب مرے نام سے جل جاتے ہیں
شمع جلتی ہے تو رو دیتی ہے سوزِ غم سے
اور پروانے تو آرام سے جل جاتے ہیں
شعلۂِ برق سے ہم راہ نشیمن اکثر
گلستاں گردشِ ایام سے جل جاتے ہیں
فطرت انصاری
Comments
Post a Comment