Radeef Rakha Hai ...Aur Tou Paas Mere Hijar Me Kia Rakha Hai
ردیف --- رکھا ہے
اور تو پاس مرے ہجر میں کیا رکھا ہے
اک ترے درد کو پہلو میں چھپا رکھا ہے
دل سے ارباب وفا کا ہے بھلانا مشکل
ہم نے یہ ان کے تغافل کو سنا رکھا ہے
تم نے بال اپنے جو پھولوں میں بسا رکھے ہیں
شوق کو اور بھی دیوانہ بنا رکھا ہے
سخت بے درد ہے تاثیر محبت کہ انہیں
بستر ناز پہ سوتے سے جگا رکھا ہے
آہ وہ یاد کہ اس یاد کو ہو کر مجبور
دل مایوس نے مدت سے بھلا رکھا ہے
کیا تأمل ہے مرے قتل میں اے بازو یار
ایک ہی وار میں سر تن سے جدا رکھا ہے
حسن کو جور سے بیگانہ نہ سمجھو کہ اسے
یہ سبق عشق نے پہلے ہی پڑھا رکھا ہے
تیری نسبت سے ستم گر ترے مایوسوں نے
داغ حرماں کو بھی سینے سے لگا رکھا ہے
کہتے ہیں اہل جہاں درد محبت جس کو
نام اسی کا دل مضطر نے دوا رکھا ہے
نگہ یار سے پیکان قضا کا مشتاق
دل مجبور نشانے پہ کھلا رکھا ہے
اس کا انجام بھی کچھ سوچ لیا ہے حسرت
تو نے ربط ان سے جو اس درجہ بڑھا رکھا ہے
حسرت موہانی
*********************
وصل ھو جائے یہیں، حشر میں کیا رکھا ہے
آج کی بات کو کیوں کل پہ اٹھا رکھا ہے
محتسب پوچھ نہ تو شیشے میں کیا رکھا ہے
پارسائی کا لہو اس میں بھرا رکھا ہے
کہتے ہیں آئے جوانی تو یہ چوری نکلے
میرے جوبن کو لڑکپن نے چرا رکھا ہے
اس تغافل میں بھی سرگرمِ ستم وہ آنکھیں
آپ تو سوتے ہیں، فتنوں کو جگا رکھا ہے
آدمی زاد ھیں دنیا کے حسیں ،لیکن امیر
یار لوگوں نے پری زاد بنا رکھا ہے
امیر مینائی
********************
چشمِ ساقی نے عجب کھیل رچا رکھا ہے۔۔
کوئی رِند، کوئی مئے خوار بنا رکھا ہے۔۔
جو پھنسا پھر نہ کبھی اس نے رہائی مانگی
تیری ذلف نے عجب جال بچھا رکھا ہے۔۔
حسن ہو، عشق ہو، دونوں کا اثر یکساں ہے
چیز ہے ایک ، مگر نام جدا رکھا ہے۔۔
چوم لیتی ہیں لٹک کر کبھی چہرہ کبھی لب
تم نے ذولفوں کو بہت سر پہ چڑھا رکھا ہے۔۔
تیری مخمور نگاہوں سے ہے رونق ساری
ورنہ ساقی تیرے مئے خانے میں کیا رکھا ہے۔۔
ن م راشد
****************
جب سے تو نے مجھے دیوانہ بنا رکھا ہے
سنگ ہر شخص نے ہاتھوں میں اٹھا رکھا ہے
اس کے دل پر بھی کڑی عشق میں گزری ہو گی
نام جس نے بھی محبت کا سزا رکھا ہے
پتھروں آج میرے سر پر برستے کیوں ہو
میں نے تم کو بھی کبھی اپنا خدا رکھا ہے
اب میری دید کی دنیا بھی تماشائی ہے
تو نے کیا مجھ کو محبت میں بنا رکھا ہے
غم نہیں گل جو کیئے گھر کے ہواؤں نے چراغ
ہم نے دل کا بھی دیا ایک جلا رکھا ہے
پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کر ناصر
غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزہ رکھا ہے
حکیم ناصر
*********************
تو نے یہ پھول جو زلفوں میں سجا رکھا ہے
ایک دیا ہے جو اندھیروں میں جلا رکھا ہے
جیت لے جاے مجھے کوئی نصیبوں والا
زندگی نے مجھے داؤ پہ لگا رکھا ہے
جانے کب دل میں کوئی جھانکنے والا آ جاے
اس لیے میں نے گریبان کھلا رکھا ہے
امتحان اور میرے ضبط کا تم کیا لو گے ؟
میں نے دھڑکن کو بھی سینے میں چھپا رکھا ہے
دل تھا اک شعلہ مگر بیت گئے دن وہ قتیل
اب کریدو نہ اسےراکھ میں کیا رکھا ہے
قتیل شفائی
***************
ہم نے الفت کا بھرم سب سے جدا رکھا ہے
گویا سینے میں تجھے دل کی جگہ بسا رکھا ہے
دل یہ چاہے کہ تو کبھی بد نام نہ ہو
دیکھ ذکر تیرا ہے مگر نام چھپا رکھا ہے
میرے جس ہاتھ سے کیا تھا تو نے مصافہ
دھویا ہی نہیں ہونٹوں سے لگا رکھا ہے
اب میں سمجھا تیرے رخسار پہ تل کا مطلب
دولت حسن پہ دربان بٹھا رکھا ہے
جدا ہوگئے ہیں تو پھر کیا ہوا ساقی
تیری تصویر کو سینے میں سجا رکھا ہے
نامعلوم
Comments
Post a Comment